رسائی کے لنکس

مشتبہ طالبان کے خلاف مقدمات کا آغاز


مالاکنڈ ڈویژن بشمول سوات میں فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے لگ بھگ 600 مشتبہ عسکریت پسندوں میں سے بعض کے خلاف انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر قانون ارشد عبداللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیرحراست افراد سے ملک کی سول اور فوجی انٹیلی جنس ایجنسیاں مشترکہ طور پر تفتیش کر رہی ہیں ۔ اُنھوں نے بتایا کہ تقریباً 25 مشتبہ شدت پسند جن کے خلاف تفتیش کا عمل مکمل ہوگیا ہے اب اُن کے خلاف انسداددہشت گردی کے ترمیم شدہ قانون کے تحت مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں۔

صوبائی وزیر قانون نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کو قرار واقعی سز ا دلوانے کے لیے انسداددہشت گردی کے ترمیم شدہ قانون کے تحت اب زیر حراست عسکریت پسندوں کے خلاف حکومت دستیاب شواہد کی بنیاد پر مقدمات قائم کرے گی اورخود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری مجرمان پر عائد ہوگی ۔ اُنھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عام قانون میں حکومت کو گرفتار شخص کے خلاف جرم ثابت کرنا ہوتا ہے لیکن اُن کے بقول خطرناک مجرموں کے خلاف لوگ ڈر اور خوف کے باعث گواہی دینے کے لیے آگے نہیں آتے جس سے مشکلات پیش آتی ہیں اور اسی بنا پراس قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔

لیکن صوبائی وزیر نے بھی واضح کیا کہ زیرحراست مشتبہ عسکریت پسندوں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے اوراس سلسلے میں وہ اپنے ذاتی یاسرکاری وکیل کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

ارشد عبداللہ نے بتایا کہ ان افراد کے خلاف مقدمات کے آغاز میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ انسداددہشت گردی کے قوانین میں موجود سقم اور ججوں کی کم تعداد تھی جو اب پوری کر دی گئی ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت ایپلٹ کورٹ کے قیام کے لیے سوات میں مناسب عمارت کی تلاش جاری ہے اور اُن کے بقول اس کام کے لیے کمشنر مالاکنڈ اور دیگر متعلقہ حکام کو دوہفتوں کا وقت دیا گیا ہے ۔ صوبائی وزیرقانون نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ جلد شریعت بنچ مالاکنڈ ڈویژن میں کام شرو ع کر دے گا۔

XS
SM
MD
LG