رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت ختم ہونے کے قریب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ان عدالتوں کی مدت آئندہ تین ہفتوں میں ختم ہو جائے گی تاہم حکومت کی طرف سے ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مزید 13 'دہشت گردوں' کی سزا کی توثیق کی ہے۔

فوج کی شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کے مطابق ان تمام مجرموں کو دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں چلائے گئے مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے یہ توثیق ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی دو سالہ مدت ختم ہونے میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔

دسمبر 2014ء میں پشاور آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد حکومت نے ملک کی بڑی جماعتوں سے مشاورت کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام اور ان کے دائرہ کار کو بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا اور گزشتہ سال چھ جنوری کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی راہ ہموار کی گئی تھی۔

اس ترمیم کے تحت دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کو دہشت گردی میں ملوث غیر فوجی ملزمان کے مقدمات سننے اور انھیں سزائیں دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ تاہم انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے ان عدالتوں کے قیام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی۔ حکومت کا موقف تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔

ان عدالتوں کی مدت آئندہ تین ہفتوں میں ختم ہو جائے گی تاہم حکومت کی طرف سے ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ان عدالتوں کے مستقبل کے بارے میں ایک بحث جاری ہے۔

ایک روز قبل ہی پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے حکومت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی کہ اکیسویں آئینی ترمیم جس کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا اس کی مدت سات جنوری کو ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لیے بروقت اقدام ضروری ہے۔

پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر عبد القیوم نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلہ متفقہ طور پر کیا جائے گا۔

"اگرچہ عدالتی اصلاحات کی لیے حکومت نے کوشش بھی کی ہے اور تیاری بھی کی ہے لیکن وہ عمل درآمد کے مرحلہ میں نہیں آیا ہے کیونکہ ان کے بارے میں قانون سازی ہو رہی ہے۔۔۔یہ ساری جماعتوں کے ساتھ اجتماعی مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا فوجی عدالتوں سے متعلق قانونی اقدام کی مدت میں توسیع کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ اجتماعی طور پر پارلیمان میں کیا جائے گا۔"

عبدالقیوم نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں فوجی عدالتوں کا دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے حوالے سے موثر کردار رہا ہے اور ان کی خیال میں اب بھی ان کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف غیر جانبدار مبصرین میں سے اکثر کا بھی یہی خیال ہے ان فوجی عدالتوں کی اب بھی ضرورت ہے کیونکہ جن معروضی حالات میں ان عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

سلامتی کے امور کے معروف تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔" میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ اس کو جاری رکھا جائے کیونکہ اگر ان کو جاری نا رکھا گیا تو اس کا اثر (دہشت گردی سے نمٹنے کے) قومی لائحہ عمل پر بھی ہو گا ۔۔۔۔ کیونکہ پہلے دہشت گردوں کے خلاف استغاثہ کی کارروائی کو آگے بڑھانے میں اس لیے مشکل ہوتی تھی کیونکہ گواہ ڈر کی وجہ سے سامنے نہیں آتے تھے۔ "

انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شروع دن سے ہی فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمات کی شفافیت سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں جب کہ اس آئینی ترمیم کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ حکومتی عہدیداروں کا موقف رہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ملزموں کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG