رسائی کے لنکس

امریکی نظام سیاست میں اقلیتوں کی کامیابی کی علامت ۔۔ نسیم انصاری


امریکی نظام سیاست میں اقلیتوں کی کامیابی کی علامت ۔۔ نسیم انصاری
امریکی نظام سیاست میں اقلیتوں کی کامیابی کی علامت ۔۔ نسیم انصاری

امریکہ کو یکساں مواقعوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی معاشرے میں ہمیں قدم قدم پر ان گنت ایسی مثالیں ملتی ہیں جس میں کسی دوسری سرزمین سے نقل مکانی کرکے امریکہ میں آ بسنے والے کسی تارکِ وطن شخص نے اپنی محنت، قابلیت اور ذہانت کی بدولت اعلیٰ مقام حاصل کیا اور مقامی باشندوں کیلیے قابلِ رشک اور رول ماڈل بن کر ابھرا۔

1946 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایک شہر خیرپور میں پیدا ہونے والے نسیم ایچ انصاری بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں جو 1977 میں اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ آئے اور کامیابی اور کامرانی کے سفر کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔

امریکی نظام سیاست میں اقلیتوں کی کامیابی کی علامت ۔۔ نسیم انصاری
امریکی نظام سیاست میں اقلیتوں کی کامیابی کی علامت ۔۔ نسیم انصاری

سندھ یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر مسٹر انصاری نے امریکہ آنے کے بعد مشی گن کے شہر کالامازو کو اپنا دوسرا گھر بنایا۔ ویسٹرن مشی گن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں اپنا دوسرا ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے اپنے کیریئر کے آغاز میں کئی مقامی دواساز کمپنیوں میں کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ کئی تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔

تاہم ان کی شخصیت کے اصل جوہر میدانِ سیاست میں کھلے۔ کمیونٹی سرگرمیوں میں سرگرم شرکت کی بدولت انہوں نے پہلے پورٹیج سٹی کونسل کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد 1999 میں کالامازو کاؤنٹی کمشنر منتخب ہوئے۔ مسٹر انصاری 1999 سے 2010 تک ہونے والے تمام انتخابات میں اس عہدے پر منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں جو ایک اعزاز ہے۔ کالامازو کاؤنٹی میں بھاری اکثریت ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکنے والوں کی ہے۔ نسیم انصاری کا تعلق بھی ریپبلیکن پارٹی سے ہے۔

ان کے حلقہء انتخاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی مقامی آبادی کا 90 فیصد سفید فام افراد پر مشتمل ہے جبکہ ایشیائی نژاد افراد کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس طرح مسٹر انصاری امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے وہ پہلے فرد ہیں جو تمام تر ثقافتی رکاوٹیں عبور کرکے مقامی امریکی سیاست میں ایک قابلِ رشک مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بظاہر مشکل نظر آنے والے ان حالات کے باوجود کاؤنٹی کمشنر کے طور پر اپنے لگاتار انتخاب کے بارے میں نسیم انصاری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس انتخاب کو کبھی بھی سیاہ فام اور سفید فام یا ایشیائی اور غیر ایشیائی کے درمیان ہونے والے مقابلے کی حیثیت سے نہیں لیا۔ ان کے بقول ان کیلیے یہ انتخاب ہمیشہ سے ان کی کمیونٹی کے مفاد کا معاملہ رہا ہے۔ ان کی اپنی کمیونٹی کے مفاد کا معاملہ!

1999 میں مسٹر انصاری نے اپنا پہلا انتخاب "ڈونٹ بی سوری، ووٹ انصاری" کے نعرے کے تحت لڑا۔ تاہم اس کے بعد سے ہونے والے ہر الیکشن میں ان کا نعرہ "پیپلز وائس، پیپلز چوائس" یعنی "عوام کی آواز اور عوام کا انتخاب" رہا ہے۔ اس سال نومبر کے انتخابات میں نسیم انصاری نے ایک بار پھر بھاری اکثریت حاصل کی۔ انکے ایک دیرینہ دوست اور انکے علاقے سے کانگریس کے ریپبلیکن رکن فریڈ اپٹن نے انکے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا۔

ان کے بقول ایک ایسے معاشرے میں جہاں عوام اپنے ذہنوں میں ایک سیاستدان کا بالکل واضح نقشہ رکھتے ہیں اور ان کی اس امیدوار سے وابستہ امیدیں اور توقعات بھی بڑی واضح ہوتی ہیں، یہ بظاہر مشکل نظر آتا تھا کہ ایک سانولا، چھوٹا اور قدرے اجنبی چہرہ انہیں اپنی جانب متوجہ کر پائے گا بھی یا نہیں۔ تاہم ان کے بقول ان کے یہ خدشات اسی دن دور ہوگئے تھے جب اپنے پہلے الیکشن کی مہم کے دوران وہ مقامی آبادی میں سے اپنا پہلا حامی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

مسلمانوں کیلیے بالعموم اور پاکستانیوں کیلیے بالخصوص پائے جانے والے نسبتاً مشکل ماحول میں ایک ری پبلکن امیدوار کے طور پر اپنی کامیابی برقرار رکھنے کا سہرا وہ اپنے اس اصول کے سر باندھتے ہیں جس کے تحت انہوں نے اپنے حلقہ اثر میں ہمیشہ متفرقات کےبجائے مشترکات کو اجاگر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پہ در پہ فتوحات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مسلمان یا پاکستانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔

گزشتہ کئی سال سے مقامی سیاست میں فعالیت اور سیاسی، سماجی اور تیکنیکی سرگرمیوں میں شرکت کے ذریعے مسٹر انصاری مقامی آبادی کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہیں پارٹی کے مخصوص موقف پہ ڈٹے رہنے کے بجائے پیش آمدہ مسائل پہ اختیار کردہ آزادانہ موقف کے باعث اپنے حلقے میں ایک ایسے شخص کی حیثیت حاصل ہے جسے الیکشن کے دوران دونوں جماعتوں کا متفقہ امیدوار سمجھاجاتا ہے۔

گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد مسٹر انصاری نے امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والے شکوک اور خدشات کے خاتمے اور اسلام کے اصل پیغام کے فروغ کیلیے سرگرمی سے کام کیا۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں مشی گن سے شائع ہونے والے ایک کثیرالاشاعتی مقامی اخبار نے اپنے اداریے میں ان کے بارے میں لکھا تھا کہ مسٹر انصاری نے کالا مازو کائونٹی کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان رابطوں کے فروغ کیلیے انتھک کوششیں کیں۔

مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے آج کل کے معاشرتی رویوں کی تشکیل میڈیا میں پیش کیے جانے والے تاثرات کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ تاہم ان کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگ اب حقیقت سے روشناس ہورہے ہیں اور اس کی حمایت میں آگے آرہے ہیں جو ان کے بقول ایک پرامید عمل ہے۔

نسیم ایچ انصاری کا کہنا ہے کہ امریکی عوام انسانیت کی خدمت میں مصروف افراد اور ان مٹھی بھر عناصر میں فرق کرسکتے ہیں جو ان کے بقول امریکہ جیسی خوبصورت قوم کے حوالے سے موجود حقائق کو کبھی داغدار نہیں کرسکیں گے۔

مسٹر انصاری کا کہنا ہے کہ تمام لوگوں کو ہر قسم کے تعصبات اور نفرتوں کو پسِ پشت ڈال کر انسانیت کی خدمت اور فلاح کیلیے کام کرنا ہوگا تاکہ آئندہ نسلوں کیلیے ایک روشن مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔

امریکی سیاست میں ٹی پارٹی کے کردار کے حوالے سے مسٹر انصاری کہتے ہیں کہ ٹی پارٹی رجعت پسند تحریک ہے تاہم مستقبل میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ امریکہ کے سیاسی نظام میں ایک علیحدہ اکائی کی صورت میں اپنا وجود تسلیم کرانے میں کامیاب ہوجائے۔ ان کے بقول کئی لوگ امریکہ کے دو جماعتی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور دونوں جماعتوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں۔

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو انصاری مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنی توجہ مثبت کاموں پہ مرکوز کرنی ہوگی اور سخت محنت اور مرکزی سیاست اور کمیونٹی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرکے اپنا وجود اور اہمیت تسلیم کرانی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کیلیے ضروری ہے کہ پاکستانی امریکن نہ صرف ووٹ کا حق استعمال کریں بلکہ مختلف سطحوں کے الیکشن بھی لڑیں۔

ان کا خیال ہے کہ پاکستانی امریکی معاشرے میں موجود بزرگ اور معذور افراد اور طلبہ کی خدمت کیلیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرکے مقامی باشندوں کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستانیوں کو ایک رول ماڈل اور مثبت کردار کا حامل ہونے کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانا ہوگی۔

XS
SM
MD
LG