رسائی کے لنکس

نو منتخب حکومت کے پہلے چار ماہ میں جبری گمشدگیوں کے 318 کیسز درج


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے سرکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ 2011ء میں لاپتہ ہونے والے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار افراد میں سے دو ہزار 789 افراد کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ اب بھی لاپتہ افراد کی تعداد تقریباً 19 سو ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے سرکاری کمیشن نے 2011ء میں درج کی گئی شکایات کے بارے میں تفصیلات جاری کیں ہیں۔ جس کے مطابق مارچ 2011ء میں کمیشن کو جبری طور پر لاپتہ ہونے والے پانچ ہزار 369 افراد کی شکایات موصول ہوئیں۔

اکتوبر 2018ء تک ان میں دو ہزار 789 افراد بازیاب ہوئے جبکہ ایک ہزار 874 افراد کا تاحال کچھ سراغ نہیں ملا ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد کی تحقیقات کے لیے یہ سرکاری کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد 2011ء میں بنایا گیا تھا۔

کمیشن نے رواں سال کے اعدادوشمار بھی جاری کیے ہیں جس کے مطابق رواں سال اگست میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نومبر تک جبری گمشدگیوں کے 318 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 226 کیسز ختم ہو گئے ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ 101 کیسز نومبر میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2011ء میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں جبری گمشیدگیوں کے سب سے زیادہ زیر التوا شکایات خیبر پختونخوا سے ہیں جہاں سے 1043 شکایات پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچستان میں 133، قبائیلی علاقوں کے 123، پنجاب کے 318 اور سندھ کے 156 جبری گمشیدگیوں کی شکایات کا کوئی حل نہیں نکالا ہے۔

سرکاری کمیشن کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ملک میں پختون کے حقوق کے لیے سرگرم تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ کوہاٹ اور صوابی سمیت مختلف قبائلی علاقوں میں اس کے درجنوں کارکن لاپتہ ہیں۔

ادھر بلوچستان میں بھی جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ احتجاج کر رہے ہیں۔

’کمیشن ناکام رہا ہے‘

لاپتہ افراد کے لیے آواز اُٹھانے والی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سرکاری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن لاپتہ افراد کی بازیابی میں ناکام رہا ہے۔

بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ ہونے والی افراد کے اہل خانہ کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ کے چیئرمین نصر بلوچ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں یہ کمیشن بنایا گیا تھا لیکن کمیشن نے فراہم کیے گئے شواہد پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ملنے اور جبری گمشیدگیوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں لیکن کمیشن کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے جانبدار پریس کانفرنس کی اور کہا کہ جبری گمشیدگیوں میں ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کمیشن کے اسی رویہ کی بنا پر اُن کی تنظیم نے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنا ختم کر دیا۔

نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ سنہ 2000 سے 2017ء تک 5028 بلوچ لاپتہ تھے جبکہ سنہ 2018ء میں جبری گمشدگیوں کے مزید 1200 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کمیشن کے سابق چیئرمین جاوید اقبال نے ’جانبدار‘ انداز میں تحقیقات کیں اور جن اعدادوشمار میں جن افراد کو بازیاب قرار دیا گیا ہے اُن میں سے اکثر کی لاشیں ملیں ہیں۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ سخت سردی میں بھی احتجاجاً کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں ان افراد میں کم سن بچے، خواتین اور معمر افراد بھی شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG