رسائی کے لنکس

کشتی ڈوبنے سے 20 روہنگیا مہاجرین ہلاک، 50 لاپتا


ڈوبنے والوں کی لاشیں ساحل پر منتقل کی جارہی ہیں۔
ڈوبنے والوں کی لاشیں ساحل پر منتقل کی جارہی ہیں۔

بنگلہ دیش کی سرحدی فورس کے افسران کے مطابق سمندر سے اب تک 20 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جن میں 12 لاشیں بچوں کی ہیں۔

میانمار کی ریاست رخائین سے بنگلہ دیش جانے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی ایک کشتی ڈوبنے سے 20 افراد ہلاک اور 50 سے زائد لاپتا ہوگئے ہیں۔

بنگلہ دیش کی پولیس کے مطابق مہاجرین کی کشتی کو حادثہ جمعرات کی شب بنگلہ دیش کے نزدیک گہرے سمندر میں پیش آیا۔

پولیس کے مطابق کشتی تیز ہوائوں ، بارش، اور بلند لہروں کے باعث ڈوبی۔

بنگلہ دیش کی سرحدی فورس کے افسران کے مطابق سمندر سے اب تک 20 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جن میں 12 لاشیں بچوں کی ہیں۔

کشتی پر سوار 27 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے لیکن اب بھی 50 سے زائد افراد لاپتا ہیں۔

زندہ بچنے والے ایک مسافر عبدالکلام نے بنگلہ دیش پہنچنے کے بعد صحافیوں کو بتایا ہے کہ کشتی پر کم از کم 100 افراد سوار تھے۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی، دونوں بیٹیاں اور ایک پوتا بھی ڈوب کر مرنے والوں میں شامل ہیں۔

عبدالکلام کے مطابق مسلح بودھ انتہا پسندوں نے ایک ہفتہ قبل رخائین میں اس کے گاؤں پر حملہ کیا تھا اور ساری خوراک اور مویشی لوٹ کر لے گئے تھے۔

اس نے بتایا کہ فوج کی جانب سے کوئی مدد نہ کرنے کے بعد اس نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت کا فیصلہ کیا اور راستے میں پڑنے والی چوکیوں سے بچتے بچاتے ساحل پہنچے جہاں سے وہ کشتی کے ذریعے بنگلہ دیش کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔

بنگلہ دیش کے سرحدی حکام نے بتایا ہے کہ رخائین سے آنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد میں گزشتہ ہفتے کمی آئی تھی لیکن گزشتہ ایک دو روز سے ان کی تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوگیا ہے۔

امدادی اہلکاروں کے مطابق اگست کے اختتام سے اب تک پانچ لاکھ دو ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں جنہیں ساحلی علاقوں میں قائم کیے جانے والے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک ساحلی قصبے ٹیکناف میں سرحدی فورس کے افسر کرنل انیس الحق نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ علاقے کے ساحل پر واقع مرکزی گزرگاہ کے ذریعے صرف جمعرات کو ایک ہزار سے زائد روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں۔

میانمار کی فوج نے 25 اگست کو روہنگیا علیحدگی پسند جنگجووں کی جانب سے اپنی چوکیوں پر حملے کے ردِ عمل میں مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑی کارروائی کا آغاز کیا تھا جسے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے "نسل کشی کے مترادف" قرار دے چکے ہیں۔

اس کارروائی کے دوران علاقے میں اب تک مسلمانوں کے درجنوں گاؤں نذرِ آتش کیے جاچکے ہیں جب کہ مسلح بودھ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے دیہات پر حملوں اور لوٹ مار کے واقعات بھی مسلسل رپورٹ ہورہے ہیں۔

تشدد کے باعث لاکھوں روہنگیا مسلمان اب تک اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ لیکن میانمار کی حکومت کا عالمی برداری اور بین الاقوامی تنظیموں کے دباؤ کے باوجود موقف ہے کہ وہ اور اس کی فوج رخائن میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔

امریکہ کا سخت ردِ عمل

دریں اثنا امریکہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد نہ روکنے پر عالمی برادری سے میانمار کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے کہا کہ رخائن سے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار کے حکام ان کی نسل کشی اور رخائن کو ان سے پاک کرنے کی باقاعدہ ایک منظم اور ظالمانہ مہم چلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میانمار کی فوج کو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرنا چاہیےاور ان کی خلاف ورزیوں کے مرتکب اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG