رسائی کے لنکس

بھولنے کی بیماری کو مت بھولیں!!


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک اندازے کے مطابق الزائمر کی ابتدائی شکل ڈیمنشیا (نسیان) دنیا بھر میں ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے۔

الزائمر ایک ایسا دماغی مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر اگر بروقت تشخیص اور علاج شروع کر دیا جائے تو اس بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو قابلِ ذکر حد تک سست کیا جا سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق الزائمر کی ابتدائی شکل ڈیمنشیا (نسیان) دنیا بھر میں ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق 2050ء تک اس مرض سے متاثرہ افراد تعداد تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔

گو کہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد کے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں، لیکن دماغی صحت سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ ملک میں اس بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔

دماغی صحت اور اس کے بارے میں شعور و آگاہی فراہم کرنے والی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم "نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن" کے جنرل سیکرٹری اور معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر عبدالمالک نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس مرض کی ابتدائی علامات پر غور کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔

ڈیمنشیا (نسیان) جسے عرف عام میں بھولنے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، کی ابتدائی علامات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں انسان کے معمولاتِ زندگی، مزاج اور رویے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن پر اگر توجہ نہ دی جائے تو آگے چل کر یہ مرض خطرناک صورت اختیار کرتے ہوئے الزائمر میں تبدیل ہوجاتا ہے جو کہ لاعلاج مرض ہے۔

"روز مرہ زندگی کے امور میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ جیسے کہ آنے جانے کے معمول کے راستوں کو انسان بھولنے لگتا ہے۔ کچھ چیزیں جہاں معمول کے مطابق رکھتا تھا وہاں رکھنا بھول جاتا ہے۔ حساب کتاب میں، لین دین میں غلطیاں کرنے لگتا ہے۔ اس کی شخصیت میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مزاج میں بھی تبدیلی کہ بعض اوقات انتہائی خوش مزاج تو کبھی ایسا کہ اس شخص سے وہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ پھر وہ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا۔"

ڈاکٹر مالک کے بقول ان ابتدائی علامات کے ظاہر ہوتے ہی معالج سے مشورہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ مرض کی تشخیص ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ الزائمر کی تشخیص ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے جو کہ دماغ کی بائیوپسی سے ہی صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ لیکن دماغ کا سی ٹی اسکین اور بعض دیگر طبی تجزیوں سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کو امکانی طور پر الزائمر کا مرض ہے یا نہیں۔

الزائمر کا مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کا طرز زندگی بھی اسے بڑھانے میں بڑی حد تک کردار ادا کرتا ہے۔

الزائمر کا مرض عموماً 60 سال کی عمر کے بعد لاحق ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدائی علامات پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں کہ صحت مند ذہن کے لیے متحرک زندگی، سادہ اور موزوں غذا بہت ضروری ہے اور ایک صحت مند ذہن ہی صحت مند معاشرے کو تشکیل دے سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG