رسائی کے لنکس

نازی جرمنی کے خلاف چرچل کی بغاوت کی کہانی


گوکہ یہ فلم تاریخی حقائق پر مبنی ہے لیکن اس دور کی سیاسی ہنگامہ خیزی کی عمدہ عکاسی کے ذریعے یہ ناظرین کو جکڑ کے رکھتی ہے

حال ہی میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی فلم 'ڈارکیسٹ آور' ایک تاریخی ڈراما ہے جو معروف فلم ساز جو رائٹ کی تخلیق ہے۔ اس فلم کا موضوع 1940ء کے موسمِ بہار میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیرِاعظم ونسٹن چرچل کا وہ فیصلہ ہے جس کے نتیجے میں برطانیہ نے نازی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔

گوکہ یہ فلم تاریخی حقائق پر مبنی ہے لیکن اس دور کی سیاسی ہنگامہ خیزی کی عمدہ عکاسی کے ذریعے یہ ناظرین کو جکڑ کے رکھتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ کس طرح چرچل نے ایک خطرناک جنگ میں کودنے کا متنازع فیصلہ کیا تھا۔

لگ بھگ 80 سال قبل 1940ء کے موسمِ بہار میں یورپ جرمنی کے سامنے ڈھیر مان چکا تھا۔ نازی بیلجئم اور فرانس پر قبضہ کرچکے تھے اور قریب تھا کہ برطانیہ بھی ان کی گود میں جا گرتا۔ لاکھوں برطانوی فوجی فرانس کے ساحلی قصبے ڈنکرک کے مقام پر پھنسے ہوئے تھے اور نازی تیزی سے ان کے گرد اپنا محاصرہ تنگ کر رہے تھے۔ ایسے میں برطانوی پارلیمان نے آخری چارے کے طور پر اس وقت کے وزیرِاعظم نیول چیمبرلین کو ہٹانے کا فیصلہ کیا جو ہٹلر کو ناراض نہ کرنے کی پالیسی کے حامی تھے۔ چیمبرلین کی جگہ ونسٹن چرچل نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا جنہوں نے برطانیہ کو نازیوں کے خلاف خم ٹھونک کر میدانِ جنگ میں اترنے پر آمادہ کیا۔

اپنی بات منوانے کے شوقین اور بے باکی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والی طبیعت کے باعث چرچل سیاسی حلقوں میں خاصے نامقبول تھے۔حتٰی کے اس وقت کے بادشاہ کنگ جارج چہارم بھی تنک مزاج چرچل کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن فلم 'ڈارکیسٹ آور' سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح چرچل نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا اور کیسے مستقبل کے بارے میں اپنے خدشات اور غیر یقینی کے باوجود اپنے خوف پر قابو پا کر انگلینڈ کو نازی جرمنی کے خلاف صف آرا ہونے پر آمادہ کیا۔

میں نے جو رائٹ اور فلم کے مرکزی اداکار گیری اولڈ مین سے فلم کے پریمیئر میں ملاقات کی جس کے اگلے روز ہم واشنگٹن ڈی سی کے ایک مقام پر دوبارہ ملے اور فلم کے بارے میں بات چیت کی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ چرچل کی شخصیت کے کس پہلو نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس پر جو رائٹ کا کہنا تھا کہ چرچل بطور انسان انہی خدشات اور تذبذب کا شکار تھے جس کا ہر عام شخص اپنی زندگی میں سامنا کرتا ہے۔ ان کے بقول چرچل کی ذہانت دراصل انہی خدشات اور تذبذب کی دین تھی۔

جو رائٹ کے بقول ان کی فلم چرچل کے اسی تذبذب کے گرد گھومتی ہے جو انہیں برطانیہ کے جنگ میں کودنے کے اس فیصلے کے بارے میں لاحق تھا جو درحقیقت خود انہوں نے کیا تھا۔

فلم میں چرچل کا کردار نبھانے والے گیری اولڈ مین کہتے ہیں انہیں چرچل کے مزاج کے اتار چڑھاؤ نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ان کے بقول چرچل کا معاملہ پل میں تولہ، پل میں ماشہ والا تھا جسے فلم کے لکھاری انتھونی مک کارٹن نے بڑی خوبی سے فلم کے اسکرپٹ کا حصہ بنایا ہے۔

گیری اولڈ مین نے اپنی بھرپور اداکاری سے چرچل کے کردار کا حق ادا کردیا ہے۔ ان کے بقول ابتداً وہ چرچل کا کردار قبول کرنے میں شش و پنج کا شکار تھے کیوں کہ چرچل ان کے قد و قامت کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوی الجثہ تھے۔ اولڈمین کہتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کردار کے لیے وہ اپنے وزن میں 50، 60 پونڈ کا اضافہ کریں لیکن پھر انہوں نے اس کردار کو ایک چیلنج سمجھ کر ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے بقول، "میں 60 سال کا ہوگیا ہوں اور اس عمر میں میں اپنے وزن کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا خیال ہے اگر میں اس کردار کے لیے اپنا وزن بڑھاتا تو اسے کم کرنے میں میری پوری عمر گزر جاتی۔ لہذا لے دے کر ہمارے پاس پروستھیٹک طریقہ (انسانی جسم کے مصنوعی اعضا کی تیاری)ہی تھا جس کے ذریعے میں چرچل جیسی جسامت حاصل کرسکتا تھا۔ خوش قسمتی سے ہمیں کازوہیرو سوجی کی شکل میں بہت عمدہ پروستھیٹک میک اپ آرٹسٹ اور ہیئر ڈیزائنر مل گیا۔ ابتدا میں مجھے اس عمل سے خوف آتا تھا اور میں نے اس عمل سے گزرنے سے کئی بار انکار بھی کیا۔ لیکن فلم کی شوٹنگ کے اختتام پر میں خوش تھا کہ میں نے یہ کردار قبول کیا اور نبھایا۔"

گیری اولڈ مین نے اپنی آواز کے زیر و بم اور ہر ہر لفظ پر زور دے کر، ٹہر ٹہر کر ادا کرنے سے اس سین میں بھی جان ڈال دی ہے جس میں چرچل کو برطانوی پارلیمان سے اپنا تاریخی خطاب کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ سین ایسا ہے کہ اس کی بنیاد پر گیری اولڈ مین کو آسکر کے لیے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ گیری کے بقول انہوں نے اس تقریر کی ریکارڈنگز اور پرانی نیوز ریل فوٹیج کو کئی بار دیکھا اور سنا اور اس کے بارے میں جتنا پڑھ سکتے تھے، پڑھا تاکہ وہ 65 سالہ چرچل جیسی یکسوئی کے ساتھ اس تقریر کے الفاظ ادا کرسکیں۔

چرچل کا کردار کئی لوگوں نے ادا کیا ہے لیکن ان میں سے بیشتر نے سابق برطانوی وزیرِاعظم کو ایک بھاری بھرکم، سنجیدہ اوراکھڑ مزاج شخص کی حیثیت سے دکھایا ہے۔ اس کے برعکس اولڈ مین کے کردار میں چرچل ہمیں ایک ہنسنے بولنے اور پھلجڑیاں چھوڑنے والی شخصیت کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ البتہ اس فلم میں بھی اپنی وفادار سیکریٹری الزبتھ پر برہمی اور اپنی اہلیہ کلیمینٹین سے نوک جھونک چرچل کے کردار کے لازمی پہلو کی حیثیت سے موجود ہے۔ فلم الزبتھ کا کردار للی جیمز نے ادا کیا ہے جب کہ چرچل کی اہلیہ کرسٹن اسکاٹ تھامس بنی ہیں۔

گیری اولڈمین کہتے ہیں کہ انہوں نے چرچل کے کردار میں زندگی ڈالنے کے لیے ان کی دستیاب ویڈیوز دیکھیں اور انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ چرچل ایک نرم مزاج، قابلِ اعتماد، زندگی سے بھرپور ایسی شخصیت تھے جو پرکشش بھی تھے اور ہنسنے بولنے کے شوقین بھی۔

'ڈارکیسٹ آور' کو دیکھتے ہوئے اس خطرے کا شدت سے احساس ہوتا ہے جو نازی جرمنی کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کرکے چرچل اور پھر برطانیہ نے مول لیا کیوں کہ اس وقت یہ جرمنی جیسی جابر قوت کے سامنے ایک سعیٔ لاحاصل لگتی تھی۔ یہ فلم اپنی تاریخی اہمیت اور موضوع کی گہرائی کے اعتبار سے تو ایک اہم فلم ہے ہی لیکن اس کا پیغام بھی انتہائی اہم ہے کہ جمہوریت کا ہر قیمت پر دفاع کیا جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG