رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کا بائیکاٹ ختم کردیا


متحدہ قومی مومنٹ کے کارکنان ایک جنازہ جلوس میں
متحدہ قومی مومنٹ کے کارکنان ایک جنازہ جلوس میں

ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ اسمبلی کے بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کردیا گیاہے ۔ اعلان منگل کو رات گئے گورنر ہاوٴس میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کیا۔

بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان ڈاکٹر فاروق ستار نے لندن اور کراچی میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اہم اجلاسوں کے بعد کیا۔ یہ اعلان لندن اور کراچی میں بیک وقت جاری کیے گئے۔

اس سے قبل ایم کیو ایم کے ایک وفد نے بلاول ہاوٴس کراچی میں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کی۔ ایم کیو ایم کے وفد کی قیادت ڈاکٹر فارروق ستار نے کی جبکہ وفد میں سید سردار احمد، بابر غوری، رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب اور عادل صدیقی شامل تھے۔ ڈاکٹرفاروق ستاراسلام آباد سے آج شام ہی کراچی پہنچے تھے۔ادھر پیپلز پارٹی کے وفد میں ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر آغا سراج درانی شامل تھے۔

ملاقات کے دوران صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ بات چیت کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے کے لئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں دو رکن ایم کیو ایم کے جبکہ باقی دو رکن پاکستان پیپلز پارٹی کے ہوں گے۔ یہ کمیٹی دو ہفتے کے دوران اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم نے پیپلز امن کمیٹی کے حوالے سے صدر سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کے ارکان مختلف جرائم میں ملوث ہیں ۔ دو روز قبل صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے پیپلز امن کمیٹی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ذیلی کمیٹی قرار دیا تھا جس پر ایم کیو ایم نے حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ اسمبلی کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پریس کانفرنس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں مسائل آتے رہتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ الطاف حسین اور صدر کے درمیان پچھلے چار دن میں کئی بار بات چیت ہوتی رہی ہے۔ الطاف حسین کے دل میں و طن کا درد ہے ۔انہوں نے یقین دلایا کہ جو کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے وہ مسائل کے باہمی حل نکالنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جرائم پیشہ گروہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اس سے قبل آج شام کراچی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی جس میں ایم کیوایم کے وفد اور صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت پر مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم کو ایک مرتبہ پھر منا لیا ہے تاہم ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ مفاہمت کتنا عرصہ چلے گی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایم کیو ایم کو بات بات پر روٹھنے اور پی پی پی کو بات بات پر منانے کی عادت پڑ گئی ہے۔

روٹھنے اور منانے کا سلسلہ

پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان روٹھنے اور منانے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ دونوں جماعتوں کے درمیان ماضی میں ایسے کئی مواقع آچکے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تودونوں جماعتوں نے پہلی بار 1988ء میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کا عہدوپیمان کیا تھا مگر یہ اتحاد اور وعدہ زیادہ دیر تک ایفا نہ ہوسکا اور محض ایک سال بعد ہی دونوں جماعتوں کی راہیں علیحدہ ہوگئیں۔

دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کی سندھ میں مخلوط حکومت عمل میں آئی تاہم نومبر دو ہزار آٹھ میں تشکیل پانے والی وفاقی کابینہ میں متحدہ نے شرکت نہ کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ متحدہ کو منایا گیا جس کے بعد جنوری دو ہزار نو میں کابینہ میں توسیع کی گئی جس میں متحدہ قومی موومنٹ کو کابینہ کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں کی جانب سے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

جنوری دو ہزار دس میں پیپلزپارٹی کے بعض وزراء کی جانب سے متحدہ کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے جس پر متحدہ قومی موومنٹ کے وزراء نے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا ارادہ کرلیاتاہم عین وقت پر دونوں جماعتوں کی قیادت نے اپنے اپنے وزراء کو بیان بازی سے روکا اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرلیاگیا ۔

اس واقعے کے چار ماہ بعد یعنی مئی 2010 میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے حیدر آباد کی پرانی حیثیت بحال کرنے سے متعلق بیان دونوں جماعتوں کے درمیان تصادم کی بنیاد بنا ۔اس پر رابطہ کمیٹی نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ۔تاہم متحدہ کے سخت ردعمل پر چند گھنٹوں بعد ہی وزیر اعظم کے ترجمان نے بیان دیا کہ یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ رابطہ کمیٹی کے اصرار پر وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال نہیں کی جائے گی ۔

سال دو ہزار دس کا سورج ڈوبنے سے تین روز قبل یعنی 27 دسمبر کو دونوں جماعتوں کا وفاقی اتحاد بھی ٹوٹ گیا اور اس کی وجہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہی بنی ۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بیان دیا تھا کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بعض عناصر کا تعلق متحدہ سے بھی ہے جس پر ایم کیو ایم کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اس بیان کی وضاحت کی جائے کہ یہ بیان ذوالفقار مرزا نے ذاتی حیثیت سے دیا ہے یا پھر پارٹی پالیسی ہے اور جواب کیلئے دس روز کا وقت دیا تاہم کوئی جواب سامنے نہ آنے کی صورت میں متحدہ قومی اسمبلی کی اپوزیشن بینچوں پر جا بیٹھی ۔

اس تمام تر صورتحال میں گیلانی حکومت کا مزید قیام مشکل دکھائی دیتا تھا ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ حکومت سے بھی علیحدگی کا اعلان کر دیا اور علیحدگی کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ بتائی گئی لیکن اس بار وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی خود کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچ گئے ۔انہوں نے پانچ روز بعد ہی قیمتوں میں اضافہ واپس لے کر روٹھی ہوئی اتحادی جماعتوں کو منا لیا تاہم متحدہ نے وزیر اعظم سے وفاقی کابینہ میں دوبارہ شمولیت سے معذرت کر لی ۔

رواں ماہ کے اوائل میں ذوالفقار مرزا نے پیپلزامن کمیٹی کو پیپلزپارٹی کی ذیلی تنظیم قرار دیا جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے نہ صرف صوبائی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا بلکہ اس کے رہنماؤں نے یہاں تک کہہ دیا کہ دونوں جماعتوں کی راہیں الگ الگ ہیں جس پر رحمن ملک ایک بار پھر حرکت میں آگئے اور لندن چاپہنچے جہاں الطاف حسین سے ملاقات کے بعد پیر کے روز گورنر سندھ نے صدر زرداری سے ملاقات کی اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق ہوا تاہم آج یعنی منگل کو ایک بار پھر متحدہ اراکین سندھ اسمبلی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جس کے باعث رات گئے متحدہ کے وفد نے صدر زرداری سے ملاقات کی اور مفاہمتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ۔

XS
SM
MD
LG