رسائی کے لنکس

مری برفباری میں اموات کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ سوشل میڈیا پر بحث


’’حکومت کو برفباری کی صورت میں ایسے ہی عوامی نقل و حرکت کو روکنا چاہئے جیسے سمندر کنارے من چلوں کو سائکلون کے موسم میں جانے سے روکا جاتا ہے۔‘‘
’’حکومت کو برفباری کی صورت میں ایسے ہی عوامی نقل و حرکت کو روکنا چاہئے جیسے سمندر کنارے من چلوں کو سائکلون کے موسم میں جانے سے روکا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری میں برف میں پھنسے افراد کی ہلاکتوں کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ٹوئٹر پر جاری بحث میں جہاں حکومت کی نا اہلی کا الزام دیتے ہوئے واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس موقع پر عوام کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں واقعے پر دکھ کا اظہار کیا مگر اس کے لیے سیاحوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا اور انتظامیہ کے خاطر خواہ تیار نہ ہونے کا اعتراف کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ایسے موقع پر ’’غیر معمولی برفباری اور موسمی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد نے آ لیا۔‘‘

وزیراعظم کی اس ٹوئٹ پر تنقید کرتے ہوئے سینئیر صحافی سلیم صافی نے لکھا کہ ضلعی انتظامیہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ماتحت ہے۔

ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ اس سانحے کی وجہ وفاقی، پنجاب اور خیبر پختونخواہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاقی دارالحکومت سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر لوگ سردی سے مر رہے ہیں۔ بقول ان کے کتنے اور لوگوں کو مرنا ہوگا تاکہ حکمران خواب غفلت سے جاگیں۔

سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی دو روز قبل کی ٹوئٹ پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے اس ٹوئٹ میں مری میں لاکھوں سیاحوں کی آمد کو ملک میں عام آدمی کی خوشحالی اور آمدن میں اضافے سے تعبیر کیا تھا۔

آج مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنی ٹوئٹ میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کے لیے پیشگی انتظامات اور حفاظتی اقدامات کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ ہلاکتیں برفباری سے نہیں، حکومتی غفلت سے ہوئی ہیں۔

سینئیر صحافی مظہر عباس نے لکھا کہ مری واقعہ پر سیاست دانوں کی جانب سے سیاست شرمناک ہے۔ یا تو انہیں وہاں جا کر مدد کرنی چاہیے یا بیانات دینا بند کردینا چاہیے۔

جب کہ صحافی علی وارثی نے لکھا کہ حکومت کے برے انتظامات کی وجہ سے ہونے والے سانحے پر سیاست سے گریز کیسے ممکن ہے؟

دوسری طرف کچھ لوگوں کا موقف تھا کہ اس قدر شدید موسم میں سیاحتی مقام کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

شاہد آفریدی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ جہاں انتظامیہ کی تیاری ناکافی تھی وہیں عوام کو رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الرٹ اور وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

ایک اور صارف ماریہ سومرو نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ لوگوں کو مکمل معلومات جیسے موسم کی پیش گوئی، ہوٹل کی بکنگ، سڑک کے حالات، کھانے پینے کے انتظامات، مناسب لباس اور طبی بندو بست کے بارے میں جانے بغیر ایسے سخت موسم میں سفر نہیں کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر صارفین اس بات پر بھی تنقید کرتے نظر آئے کہ ایسے موقع پر عوام کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ ’ایچ‘ کے نام سے ایک صارف نے لکھا کہ ایسے موقع پر لوگوں کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں جو اپنے خاندانوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے نکلے تھے اور برف میں پھنس گئے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ عوام کی غلطی نہیں ہے کہ ہمارے بڑے سیاحتی مقام کا انفراسٹرکچر برفباری کو سنبھالنے میں ناکام ہو گیا۔

جب کہ معاشی امور کی صحافی اریبہ شاہد نے لکھا کہ مری کا واقعہ اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہمارے محکمہ موسمیات کو نئے آلات اور انتظامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو برفباری کی صورت میں ایسے ہی عوامی نقل و حرکت کو روکنا چاہیے جیسے سمندر کنارے من چلوں کو طوفانی موسم میں جانے سے روکا جاتا ہے۔

برف میں پھنسے افراد کی اموات کیسے ہوئیں؟

برف میں پھنسے کم از کم اکیس افراد کی اموات کی خبر سن کر سوشل میڈیا پر صارفین بھرپور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے میں جہاں پہلے یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ان افراد کی ہلاکتیں سردی سے ٹھٹھر کر، یعنی ہائیپوتھرمیا سے ہوئی ہیں وہیں بعض افراد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایسے موقع پر گاڑی کا ایگزاسٹ پائپ برف میں دفن ہونے سے گاڑی میں ذہریلی کاربن مونو آکسائیڈ گیس بھر سکتی ہے جس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

آئی جی نیشنل ہائی وے پولیس اور موٹر ویز انعام غنی نے لکھا کہ اگر آپ کی کار برف میں پھنس جائے اور آپ کا انجن چل رہا ہو تو کار کی کھڑکی کھول کر رکھیں اور سائلنسر کا پائپ صاف کر لیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن اور اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اسد اکبر خان نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کاربن مونو آکسائڈ کے جسم میں داخل ہونے کی علامات میں بہت زیادہ سستی، اونگھ آنا اور بے ہوشی کی کیفیت پیدا ہونا شامل ہیں۔ اس دوران لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اسی حالت میں ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سانس لیتے ہوئے کاربن مونو آکسائڈ کے مسلسل جسم میں داخل ہونے سے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے، جسم میں تیزابیت پھیلتی ہے اور دل کی دھڑکن بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں جب لوگ سوئے ہوتے ہیں تو انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا اور ان کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔

جہاں سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں میڈیا پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ عوام کو شعور دینے میں ناکام رہا ہے۔ اینکر شفا یوسفزئی نے لکھا کہ میڈیا کو چاہیے کہ لوگوں کو گاڑی میں گھنٹوں ہیٹر چلا کر سو جانے کے بھی مضر اثرات سے آگاہ کرے۔

امریکہ میں فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (فیما) کی ویب سائٹ پر برفباری یا طوفان میں پھنسنے کی صورت میں دی گئی تجاویز کے مطابق ایسی صورت میں گاڑی سے باہر نکل کر مدد کی تلاش کے بجائے گاڑی میں ہی موجود رہنا چاہیے اور جسم کو غیر ضروری سردی سے بچانا چاہیے۔

ادارے کے مطابق ایسے میں گاڑی کا ہیٹر استعمال کرنے کے لیے انجن کو ہر گھنٹے میں صرف دس منٹ تک چلایا جائے۔ گاڑی کا اگزاسٹ پائپ صاف کر لیا جائے اور ایک کھڑکی ہلکی سی کھلی رکھی جائے تاکہ تازہ ہوا گاڑی میں داخل ہوتی رہے اور کاربن مونوآکسائڈ بھر جانے کا خطرہ کم کیا جا سکے۔

فیما کی تجویز ہے کہ سرد موسم میں نکلنے سے پہلے گاڑی میں پانی کی بوتلیں، کھانے پینے کی کچھ اشیا، اضافی کمبل اور گرم کپڑے ساتھ رکھیں اور سڑک کنارے پھنسنے کی صورت میں جسم کو کپڑوں، کمبل یا رضائی سے گرم رکھیں۔ ہلکی پھلکی ورزش خون کی گردش کے لیے اچھی ہے لیکن بہت زیادہ طاقت نہ صرف کی جائے کیونکہ اس سے دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔ اور گاڑی میں موجود تمام افراد ایک وقت پر نہ سوئیں بلکہ باریاں طے کر لی جائیں تاکہ حالات پر نظر رکھی جا سکے۔

XS
SM
MD
LG