امریکی ریاست میری لینڈ میں مقامی مسلمان تنظیموں کے اندازے کے مطابق 2 لاکھ مسلمان بستے ہیں۔60 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں میں 65 فیصد تارکین وطن ہیں جبکہ 35 فیصد مقامی یا امریکی مسلمان ہیں۔ ریاست کی سطح پر قائم مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکی مسلمانوں کا امریکی سیاسی اور سماجی دھارے میں شامل ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بہتر کر سکیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں میری لینڈ کے شہر اناپولس میں ایک تقریب منقعد ہوئی۔
حماد متین یہاں میری لینڈ کی ایک مسلمان تنظیم سے وابستہ ہیں۔ جس کا مقصد مسلمان کمیونٹی کو ریاست میری لینڈ میں ہونے والی قانون سازی سے روشناس کرانا اور انھیں اس قانون سازی کا حصہ بننے کی طرف مائل کرنا ہے ۔
میری لینڈ کے سٹیٹ اٹارنی کے انتخاب لڑنے والے حماد متین کہتے ہیں کہ اپنے مذہبی پس منظر کے حوالے سے امریکہ میں بڑھتے ہوئے تجسس نے انہیں آگے بڑھ کر امریکیوں کو اسلام اور مسلمانوں کا مثبت چہرہ دکھانے کی تحریک دی ۔ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے سکول میں اکیلا مسلمان تھا۔ کوئی واقعہ ہوتا تھا تو لوگ مجھ سے سوال کرتے تھے اسلام کیا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ میں ان لوگوں بتا سکتا ہوں اسلام کیا ہے۔ وہ مجھے روزہ رکھتے، سکول میں نماز پڑھتا دیکھتے تو اس سے متاثر ہوتے۔کچھ غلط باتیں بھی کرتے ، لیکن بچے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اساتذہ اور میرے دوست میری عزت کرتے۔جب میں بڑا ہوا تو مذہب اور ثقافت کو ملا کر جینا سیکھا۔میں مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، لیکن میں ٹی بال اور باسکٹ بال بھی کھیلتا ہوں اور یہ چیز میری انسپاریشن ہے۔
حسن جلیسی میری لینڈ مسلم کونسل کے موجودہ صدر ہیں اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا فعال حصہ بنانے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو یہاں کی سوسائٹی میں شامل کریں اور سوشل کام کریں۔ جب تک وہ یہاں ایک عام امریکن کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوں گے انھیں غیر ملکی ہی سمجھا جائے گا۔
تقریب میں ریاست میری لینڈ کے اراکین اسمبلی نے بھی شرکت کی اور مسلمان کمیونٹی کو ریاستی اسمبلی میں ہونےو الی اس قانون سازی سے آگاہ کیا جن کا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہے ۔روزگار کے اوقات میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بل میری لینڈ اسمبلی کے رکن روزن برگ نے متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے مسائل دیکھتا رہا ہوں۔ میں یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مذاہب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ روزگار کے اوقات میں یہاں شہریوں کو ان کے مذہب کے مطابق نرمی دینا۔ جیسے کے رمضان میں آپ کو مخصوص اوقات میں چھٹی چ اور اس طرح کے دیگر معاملات۔ اس بل کے تحت حل کیے جا سکیں گے۔
بیش فیرون ایک سرجن ہیں اور مسلم کاونٹی کونسل کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی تقریبات سے نا صرف ہمارے مسائل اسمبلی ممبران تک بلکہ اسمبلی ممبران بھی ہماری کمیونٹی تک پہنچتے پاتے ہیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والے ریاست میری لینڈ کے عہدے داروں نے اس حوالے سے اپنے ٕخیالات کا اظہار کیا۔جنرل جم ایٹکنز،ایڈجوٹانٹ جنرل میری لینڈ سٹیٹ نے کہا کہ امریکہ بہت سی ثقافتوں اور مذاہب کو ملا کر بنتا ہے۔ یہ ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم ایک دوسرے کو جانیں اور سمجھیں۔ہماری فوج میں مسلمان بھی ہیں۔ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ میں انھیں سپورٹ کرتا ہوں۔
تقریب میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی۔کمیونٹی ممبر اور مسلم کاونٹی کونسل کی رکن ارما حفیظ کا کہنا تھا کہ ان سرگرمیوں کا مقصد امریکہ میں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پراجیکٹس میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ کمیونٹی کے مستقبل کے لیے فائدہ مندہوں۔
ریاست میری لینڈ ہی نہیں ، امریکہ کی تمام ریاستوں میں قائم مسلمانوں کی ایک سو سے زیادہ تنظیمیں مقامی حکومتی نمائندوں اور اپنے درمیان فاصلے اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ امریکہ کا آنے والا کل اس کی با صلاحیت مسلمان کمیونٹی کی توانائی سے مثبت فائدے اٹھا سکے ۔