رسائی کے لنکس

مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات، ایک مذاکرہ


مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات، ایک مذاکرہ
مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات، ایک مذاکرہ

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ گذشتہ جون میں صدر نے قاہرہ میں جو تقریر کی تھی، جس میں مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے لیئے کہا گیا تھا، اس سے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔لیکن اس تقریر کے ایک سال بعد، اگر اوباما انتظامیہ نے قاہرہ کی تقریر کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات نہ کیے تو وہ عوامی توقعات ، خاص طور سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حوالے سے، مایوسی میں بدل سکتی ہیں۔یہ وہ خیالات ہیں جن کا اظہار دانشوروں نے واشنگٹن میں سنٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام میں ہونے والی حالیہ مجلس مذاکرہ میں کیا۔

سینٹر فار دی اسٹڈی آف اسلام میں ہونے والی مجلس مذاکرہ کا عنوان تھا: مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات: قاہرہ کی تقریر کے ایک سال بعد۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیا جائے اور اس بات پر تبادلۂ خیال کیا جائے کہ صدر اوباما نے قاہرہ میں جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے موئثر ترین طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔

سینٹر کے ایک پروگرام کے ڈائریکٹر اسٹیون کُل نے کہا کہ صدر اوباما کے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کے رویے میں کچھ بہتری آئی ہے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ مسلمانوں میں ناراضگی اب بھی بہت زیادہ ہے، خاص طور سے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حوالے سے۔ان کا کہنا تھا ’’امریکہ میں ہمیشہ اسرائیل کے سلسلے میں پالیسی تبدیل کرنے اور اسرائیل پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی بات کی جاتی ہے۔لیکن وسیع تر معنوں میں لوگ چاہتے ہیں کہ امریکہ اس معاملے میں زیادہ فعال کردار ادا نہ کرے۔‘‘

ایسے ملک میں بھی جو مشرقِ وسطیٰ سے بہت فاصلے پر ہے، یعنی نائجیریا میں ، اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو طے کرنا وہ پہلاوعدہ ہے جو مغربی افریقہ کے اس ملک کے مسلمانوں کی نظر میں صدر اوباما کو پورا کرنا چاہیئے ۔ نائجیریا کے ترقیاتی گروپ چئرش فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر جنرل کُول برونڈ ڈارٹ کہتی ہیں’’جب تک یہ بحران جاری رہے گا اور تمام لوگوں کےخود اختیار ی کے حق پر مبنی دو ریاستوں کی بنیاد پر یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا یہ مسئلہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بنا رہے گا۔‘‘

بروَنڈ ڈارٹ نے کہا کہ یہ تنازع نائجیریا کے مسلمانوں کے لیے رِستے ہوئے زخم کی مانند ہے۔ لوگوں میں یہ احساس موجود ہے کہ دو ریاستوں پر مبنی حل کے لیے صرف اوباما کے نیک ارادے کافی نہیں ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ میں مسلمان آبادیوں کے لیے خصوصی نمائندہ، فرح پنڈت نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے بات چیت کی ہے۔ انھوں نے کانفرنس کو بتایا کہ تقریباً ہر گفتگو میں لوگوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بنیادی مسئلہ اسرائیلی فلسطینی تنازع ہے ۔

اگرچہ انھوں نے دو ریاستوں کے حل کی دشواریوں کو تسلیم کیا لیکن انھوں نے کہا کہ شروع ہی سے اوباما انتظامیہ نے اسے ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔’’اہم بات یہ ہے کہ صدر اور وزیرِ خارجہ نے اسرائیلی-فلسطینی مسئلے کے لیے اپنی کوششیں وقف کر دی ہیں۔مشرق وسطیٰ کے لیے ایک خصوصی مندوب مقرر کیے گئے ہیں جو صرف اسی مسئلے پر رات دن کام کر رہے ہیں اور صدر نے روز اول سے اس مسئلے کو حل کرنے کا جو عزم کیا ہے ہم سب اسے سُن چکے ہیں۔‘‘

عرب دنیا میں نوجوانوں پر اس خبر کا اچھا اثر پڑا ہے کہ صدر اوباما ذاتی طور پر اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کی کوششوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ قاہرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسرمعطاز فاتح نے بتایا کہ عرب نوجوانوں میں امریکہ کے تاثر کے بارے میں انھوں نے جو سروے کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کے خیال میں مسلمان دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ ’’ان کی کوششوں کی یقینا ً تعریف کی جاتی ہے لیکن ان سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ اور زیادہ کوشش کریں گے اگرچہ ان کے کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بہت کم ہیں خاص طور سے جب نیتن یاہو کا سارا زور نئی بستیوں کی تعمیر پر ہے ۔‘‘

کانفرنس میں موجود دوسرے دانشوروں نے کہا کہ ایک سال کے عرصے میں نتائج کی توقع کرنا قبل از وقت ہے ۔لیکن انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں حقیقی تبدیلی اوباما کے عہدے کی پہلی مدت کے آخر میں یا صدارت کی دوسری مدت میں آ سکتی ہے ۔ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG