رسائی کے لنکس

میانمار میں جمہوریت کے نئے دور کا آغاز


آنگ سان سو چی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہی ہیں۔
آنگ سان سو چی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہی ہیں۔

جمہوری رہنما آنگ سان سو چی نے دارالحکومت نے پی ٹا میں اپنی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں قیادت کی۔

میانمار میں پیر کو تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جب جمہوری طور پر منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اور گزشتہ پچاس سال سے جاری فوجی آمریت کا باضابطہ خاتمہ ہوا۔

جمہوری رہنما آنگ سان سو چی نے دارالحکومت نے پی ٹا میں اپنی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں قیادت کی۔ این ایل ڈی نے گزشتہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

این ایل ڈی نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں 80 فیصد سے زائد منتخب نشستیں حاصل کر کے فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو شکست دی تھی۔

1990 کے عام انتخابات

1990 میں بھی این ایل ڈی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی مگر فوج نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نئی پارلیمان پیر کے اجلاس میں نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرے گی۔

آنگ سان سو چی کے قریبی ساتھی ون منٹ کے اسپیکر منتخب ہونے کی توقع ہے جبکہ یونین سولیڈیریٹی پارٹی کے ٹی کھن میاٹ کو ڈپٹی اسپیکر بنایا جائے گا۔

قانون ساز نئے صدر کا بھی انتخاب کریں گے جو موجودہ صدر تھائن شین کی جگہ لیں گے۔ صدر تھائن شین ایک سابق جنرل ہیں جنہوں 2011 میں فوج سے اقتدار حاصل کر کے ایک نیم جمہوری حکومت کی قیادت کرتے ہوئے ملک میں کئی جمہوری اصلاحات نافذ کیں۔

صدر بننے کی ممانعت

موجودہ آئین کے مطابق آنگ سان سو چی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کے دونوں بیٹے برطانوی شہری ہیں۔ ان کے موحوم شوہر بھی برطانوی شہری تھے مگر وہ کہہ چکی ہیں کہ صدر چاہے کوئی بھی ہو تمام فیصلے وہ خود کریں گی۔

نوبل انعام یافتہ سو چی نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی کابینہ میں یونین سولیڈیریٹی پارٹی کا کم از کم ایک رکن اور نسلی اقلیتوں کے نمائندوں کو ضرور شامل کریں گے جنہوں نے اقتدار سے محرومی کی شکایت کی ہے۔

این ایل ڈی نسلی اقلیت کیرن کے ایک رکن کو ایوان بالا کے اسپیکر اور رخائن برادری کے رکن کو ڈپٹی اسپیکر نامزد کرے گی۔

پارلیمان میں بھاری اکثریت کے باوجود حکمران جماعت این ایل ڈی کو فوج سے انتظامی روابط قائم کرنے ہوں گے جسے 2008 کے آئین کے مطابق پارلیمان کی 25 فیصد نشستوں پر اپنے نمائندے نامزد کرنے کا اختیار ہے۔ فوج دفاع، داخلہ اور بارڈر سکیورٹی کے متعلق اہم سرکاری عہدوں پر اثرورسوخ رکھتی ہے۔

XS
SM
MD
LG