رسائی کے لنکس

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد مزید میڈیا ادارے بند


ریاست کاچن میں مظاہرین ہیلمٹ پہنے فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فروری 20, 2021
ریاست کاچن میں مظاہرین ہیلمٹ پہنے فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فروری 20, 2021

میانمار کے عوام کو اب خبروں تک رسائی میں مزید کمی کا سامنا ہو گا کیونکہ اخبار سین تاؤ چَین یا سٹینڈرڈ ٹائمز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اخبار کی پرنٹ اور آن لائین اشاعت کو عارضی طور پر بند کر رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ادارے کا کہنا ہے کہ اسے فوجی بغاوت کے بعد مواصلات اور اخبار کی تقسیم میں خلل اندازی کا سامنا ہے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد نجی ملکیت میں چلنے والا یہ چوتھا اخبار ہو گا جس نے اپنی اشاعت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اشاعت بند کرنے والوں میں انگریزی زبان کا روزنامہ میانمار ٹائمز بھی شامل ہے جس نے بغاوت کے بعد، عارضی بندش کا اعلان کیا تھا۔

فوج کی جانب سے، 8 مارچ کو، پانچ خبر رساں اداروں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے۔ جن اداروں کے لائسنس منسوخ ہوئے ان میں میانمار ناؤ، خٹ تھٹ میڈیا، می زِی ما اور ڈیموکریٹک وائس آف برما شامل ہیں۔

یہ سب ادارے، فوج کی جانب سے سویلین حکومت کی برطرفی کے بعد، میانمار کی موجودہ صورت حال پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔ فوج نے انتخابات میں غیر مصدقہ دھاندلی کے دعوؤں پر آنگ ساں سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے سینئر لیڈروں کو گرفتار کر لیا تھا۔

میڈیا سے متعلق معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ستھو اونگ مائنٹ نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے آزاد و خودمختار میڈیا کو اس وقت مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اداروں کے مدِ نظر عوام کو آزاد اور شفاف پریس کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں سینسر شپ کا بھی خطرہ ہے۔

سرکاری تحویل میں چلنے والے دو اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن اور فوج کی نگرانی میں چلنے والا میاوادی ٹی وی ابھی تک اپنی اشاعت اور نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انسانی اور شہری حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی اداروں نے فوج کی جانب سے میڈیا اداروں کے لائسنس منسوخ کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔

ویانا میں قائم انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، باربرا ٹری اونفی کہتی ہیں کہ خودمختار میڈیا اداروں کا لائسنس منسوخ کرنا جو ملک میں جاری صورت حال کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر رہے تھے، میانمار کی جانب سے سخت ظالمانہ اقدام ہے، جو براہ راست سینسرشپ، بنیادی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی کے مترادف ہے۔

پیرس میں قائم رپوٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے۔

تنظیم کے ایشیا پیسیفک کے سربراہ، ڈینئل باسٹارڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو وقت ضائع کئے بغیر، حکمران جنتا کے کمانڈروں پر پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق کرنا ہوگا اور پریس کی آزادی کے مکمل خاتمے کے لیے ان کی کوششوں کو روکنا ہو گا۔

اقوام متحدہ نے اس ہفتے، میانمار میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یکم فروری سے اب تک کم ازکم 149 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک کم ازکم 47 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 19 اب تک حراست میں ہیں۔ ملک میں اطلاعات تک رسائی کو مسلسل خطرہ ہے اور اس کی وجہ مارشل لا کا بڑھتا ہوا استعمال اور ریاست کی طرف سے عائد مواصلاتی رکاوٹیں ہیں۔

میانمار کی ریاستی ایڈمنسٹریٹو کونسل کی پریس ٹیم کے سربراہ بریگیڈئیر زاؤ مِن تُن کا 11 مارچ کو کی گئی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ فوج، میڈیا کی آزادیوں کا احترام اور قدر کرتی ہے، اور اس نے صرف ان صحافیوں کو گرفتار کیا ہے جو شورش کو ہوا دے رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG