رسائی کے لنکس

میانمار: مسلمان اقلیت کی شہریت، تصدیق کا عمل روک دیا گیا


روہنگیا
روہنگیا

ملک میں زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو روہنگیا کہلاتے ہیں، جس اسطلاح کو حکومت مسترد کرتی ہے۔ میانمار روہنگیا کو بنگلہ دیش سے وارد ہونے والے غیرقانونی پناہ گزیں خیال کرتا ہے، جن کی ’بنگالی‘ کے طور پر شناخت کی جاتی ہے

میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، کے ریکھائن کی مغربی ریاست سے تعلق رکھنے والی مسلمان اقلیت کی شہریت کی تصدیق کے کام کے نئےقومی منصوبے کو روک دیا گیا ہے۔

ریکھائن کے وزیر اعلیٰ، مئانگ مئانگ اون نے جمعرات کے دِن ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ گذشتہ سال جب سے اس پروگرام کا آغاز ہوا ہے، اب تک 40 مسلمانوں کو شہریت مل گئی ہے، جب کہ 200 کو عارضی شہریت دی گئی ہے، کیونکہ جن لوگوں نے اپنی شناخت بنگالی کے طور پر کی، اُنہی کی درخواست منظور کی گئی ہے۔

مئانگ کے بقول، ’ریکھائن کی صورت حال بہت ہی پیچیدہ ہے۔ تصدیق کا عمل مشکل ہے، اس لیے کہ درخواست دہندگان ایسی شناخت بتا رہے ہیں، جو دراصل ملک میں موجود ہی نہیں ہے‘۔

ملک میں زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو روہنگیا کہلاتے ہیں، جس اسطلاح کو حکومت مسترد کرتی ہے۔ میانمار روہنگیا کو بنگلہ دیش سے وارد ہونے والے غیرقانونی پناہ گزیں خیال کرتا ہے، جن کی ’بنگالی‘ کے طور پر شناخت کی جاتی ہے۔

حکام نے کہا ہے کہ تصدیق کا یہ عمل 1982ء کے قانون کے تحت پورا کیا جارہا ہے، جس کی رو سے بنگالی کی جگہ روہنگیا کے طور پر نام درج کرانے والے کو شہریت نہیں دی جاسکتی۔

شوے مئانگ کا تعلق ریکھائن کے مغربی علاقے سے ہے، جہاں سے وہ مسلمان رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ،’اس مسئلے کا کوئی تو حل ہوگا‘۔

کئی برسوں سے، حقوق انسانی کے بین الاقوامی گروپ حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے آئے ہیں، جن میں روہنگیا کو شہریت دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور اُن کے سفر پر پابندیاں لاگو ہیں۔

سنہ 2012سے اب تک میانمار کی بودھ اکثریت اور مسلمان اقلیت کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 240 سے زائد افراد ہلاک، جب کہ لگ بھگ 140000 نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

ہلاک شدگان اور نقل مکانی کرنے والوں میں اکثریت اُن افراد کی ہے جو مغربی ریاست ریکھائن سے تعلق رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG