رسائی کے لنکس

دنیا یزیدی لڑکیوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کرے، نوبیل انعام یافتہ نادیہ مراد


داعش کی قید میں زندگی گزارنے اور خواتین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن نادیہ مراد نوبیل انعام وصول کرنے کے موقع پر تقریر کر رہی ہیں۔ 10 دسمبر 2018
داعش کی قید میں زندگی گزارنے اور خواتین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن نادیہ مراد نوبیل انعام وصول کرنے کے موقع پر تقریر کر رہی ہیں۔ 10 دسمبر 2018

یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والی سرگرم کارکن نادیہ مراد نے، جسے داعش نے پکڑ کر عراق اور شام میں اپنی جنسی کنیز بنائے رکھا تھا، فرار ہونے کے بعد عسکریت پسندوں کی قید میں موجود خواتین اور لڑکیوں کی آزادی کے لیے مہم چلائی اور سینکڑوں خواتین کو رہائی میں مدد دی۔ ان خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبیل امن انعام کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔

10 دسمبر کو انہیں اوسلو میں ایک خصوصی تقریب کے دوران نوبیل ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے نادیہ کا کہنا تھا کہ یہ اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں کمزور یزیدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرے۔

نادیہ مراد اور کانگو میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ڈینس مک ویج کے ہمراہ۔ دونوں کو مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ 10 دسمبر 2018
نادیہ مراد اور کانگو میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ڈینس مک ویج کے ہمراہ۔ دونوں کو مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ 10 دسمبر 2018

25 سالہ نادیہ مراد کو کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مک ویج کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبیل انعام دیا گیا ہے جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے جمہوریہ کانگو میں جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین اور عورتوں کا علاج کر رہے ہیں اور انہیں صدمے اور خوف کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دے رہے ہیں۔

نوبیل کمیٹی کے چیئرمین بریٹ ریس اینڈرسن نے اس موقع پر اپنی تقریر میں نادیہ مراد اور بریٹ ریس اینڈرسن کو آج کی دنیا کی دو مضبوط ترین آوازیں قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں نے اپنے مختلف پس منظروں کے باوجود انصاف کے لیے جدوجہد کی۔

نادیہ مراد ریس اینڈرسن کی تقریر کے دوران یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مصائب کے ذکر پر آبدیدہ ہو گئیں۔

نادیہ اور ان کی کمیونٹی نے داعش کی قید کے دوران شديد مسائل جھیلے۔ بڑی عمر کی عورتوں اور مردوں کو داعش نے اجتماعي طور پر قتل کیا جسے اقوام متحدہ نے نسل کشی قرار دیا ہے۔

نادیہ مراد کو داعش نے 2014 میں پکڑا تھا جس کے بعد انہیں مارپیٹ، زبردستی شادی اور اجتماعي جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا، اس دوران وہ ان کی قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔

نادیہ مراد نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی کمیونٹی کے ہزاروں لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گیا، انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور آج بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ داعش کی قید میں موجود لگ بھگ 3000 ہزار یزیدی خواتین کہاں ہیں، کس حال میں ہیں اور ان پر کیا گزر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوان لڑکیوں کو اپنی عمر کی سنہرے دور میں خریدا، بیچا اور قید میں رکھا جاتا ہے اور ہر روز ان سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG