رسائی کے لنکس

مودی کا علی گڑھ یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب، ادارے کو 'منی انڈیا' قرار دے دیا


بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے معروف اور تاریخی تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی سو سالہ تقریبات کا آن لائن افتتاح کرتے ہوئے یونیورسٹی کو 'مِنی انڈیا' اور ملک کا قابلِ فخر ورثہ قرار دیا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے منگل کو اپنے خطاب میں کہا کہ یہاں سے نکلنے والے طلبہ پوری دنیا میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کو تقریب میں مہمان خصوصی بنانے پر احتجاج کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ تاہم مودی نے بلاتعطل تقریب سے آن لائن خطاب کیا۔

نریندر مودی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 100 برسوں کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے دنیا کے متعدد ملکوں کے ساتھ بھارت کے رشتوں کو مضبوط بنایا ہے۔

انہوں نے یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ اے ایم یو کیمپس اپنے آپ میں ایک شہر جیسا ہے۔ ان کے بقول وہ یہاں جو تنوع اور مختلف رنگ دیکھتے ہیں، وہ نہ صرف یونیورسٹی کی بلکہ پورے ملک کی طاقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کی عمارتوں کو آج خوب سجایا گیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف عمارتیں نہیں ہیں بلکہ ان سے وابستہ تعلیمی تاریخ بھارت کا قیمتی ورثہ ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ مجھے غیر ملکی دوروں میں اکثر یہاں کے سابق طلبہ ملتے ہیں۔ جو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اے ایم یو سے تعلیم حاصل کی ہے۔

ان کے بقول آج پوری دنیا میں اے ایم یو سے تعلیم یافتہ افراد چھائے ہوئے ہیں۔

انھوں نے اے ایم یو کی انفرادی شناخت کا سہرا ان قدروں کے سر باندھا جن پر سرسید احمد خاں نے اس تعلیمی ادارے کو قائم کیا تھا۔

متنازع شہریت بل کی وجہ سے حالیہ عرصے میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔
متنازع شہریت بل کی وجہ سے حالیہ عرصے میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہاں اردو، عربی، فارسی اور اسلامی ادب پر جو تحقیق ہوتی ہے, اس سے عالم اسلام کے ساتھ بھارت کے رشتوں کو نئی توانائی ملتی ہے۔

انھوں نے کرونا کی وبا کے دوران اے ایم یو کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کی کوششیں بے مثال ہیں۔

ان کے بقول ہزاروں افراد کا مفت ٹیسٹ، آئسولیشن وارڈز، پلازمہ بینک کا قیام اور پی ایم کیئر فنڈ میں ایک بڑی رقم دینا یونیورسٹی کی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے مسلم طالبات کے تعلیمی ڈراپ آؤٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب مسلم طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ان کا ڈراپ آؤٹ ریٹ کم ہوا ہے۔

بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد کم کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

اس موقع پر انھوں نے صد سالہ تقریبات کے حوالے سے ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔

وزیراعظم شائد مسلمانوں سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتے ہیں'

یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے صدر پروفیسر شافع قدوائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ چوں کہ پروگرام آن لائن تھا اس لیے اس کا لنک تمام شعبوں کو فراہم کر دیا گیا تھا اور لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں بیٹھ کر پروگرام میں شرکت کی۔

تاہم بعض اطلاعات کے مطابق وزیرِ اعظم مودی کو مدعو کیے جانے کی مخالفت آن لائن کی جاتی رہی۔

یونیورسٹی کے ایک طالب علم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق رجسٹرار پروفیسر خواجہ محمد شاہد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کچھ لوگوں نے گجرات فسادات اور مودی کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ان کی مخالفت کی تھی۔ لیکن ان کے خیال میں ان کو مدعو کرنا اس لیے غلط نہیں تھا کہ وہ حکومت کے سربراہ ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ امید تھی کہ وزیر اعظم 140 کروڑ روپے کی مالی معاونت کا اعلان کریں گے۔ ان لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے۔

خواجہ شاہد نے مزید کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق حکومت خود چاہتی تھی کہ وزیر اعظم مودی اس تقریب میں شرکت کریں۔

ان کے بقول مودی ابھی حال ہی میں دہلی کے گرودوارہ رکاب گنج گئے تھے اور اب انہوں نے اے ایم یو کی تقریب میں شرکت کی۔ ان کے بقول وہ شائد اے ایم یو کے توسط سے مسلمانوں سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی بات ہے، تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

خواجہ شاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی یا موجودہ حکومت سے کوئی بہت زیادہ امید بھی وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ پانچ دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی وزیر اعظم نے اے ایم یو کی کسی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

اس سے قبل آخری بار سن 1964 میں اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اے ایم یو کا دورہ کیا تھا۔

اس سے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو چار مرتبہ 1948، 1955، 1960 اور 1963 میں علیگڑھ یونیورسٹی آئے تھے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG