رسائی کے لنکس

اڑن طشتریوں پر ناسا کا بڑا عوامی ٹی وی شو،  کچھ سوال اب بھی تشنہ ہیں


یو ایف او ز۔۔فائل فوٹو
یو ایف او ز۔۔فائل فوٹو

ایک سال پہلے خلائی تحقیق کے دنیا کے سب سے بڑے ادارے ناسا نے متعدد مستند شہادتیں منظر عام پر آنے کے بعد اڑن طشتریوں کی حقیقت کا کھوج لگانے کا کام شروع کیا اورگزشتہ روز 31 مئی کو ممتاز سائنس دانوں اور فلکیات کے ماہرین پر مشتمل ایک 16 رکنی پینل نے ٹیلی وژن پر چار گھنٹے پر مشتمل ایک عوامی شو میں اس پر کھل کر بات کی۔ اس پینل میں امریکہ کے ایک ریٹائرڈ خلاباز سکاٹ کیلی بھی شامل تھے جو خلا میں لگ بھگ ایک سال گزار چکے ہیں۔

آپ نے اڑن طشتریوں کے بارے میں سنا اور پڑھا ہو گا ۔شاید انہیں فلموں میں بھی دیکھا ہو اور ممکن ہے کہ آپ کے اردگرد ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو یہ دعویٰ کرتے ہوں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اڑن طشتری کو رات کی تاریکی میں چمکتی روشنیوں کے ساتھ تیزی سے آسمان پر گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ اڑن طشتری کیا ہیں اور کہاں سے آتی ہیں؟

پینل کے ایک سائنس دان ڈین ایونز کا کہنا ہے کہ اس زمین سے باہر ایسی کسی مخلوق کا کوئی وجود نہیں ہے جو اڑن طشتریوں کو چلا رہی ہو۔

روزویل نیو میکسیکو میں قائم انٹرنیشنل میوزئیم اینڈ ریسرچ سینٹرمیں لگی ایک پینٹنگ۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کئی سال قبل ایک مبینہ یو ایف او حادثے کا جائے مقام بنا تھا۔فوٹو دس جون ، انیس سو ستانوے بشکریہ اے پی
روزویل نیو میکسیکو میں قائم انٹرنیشنل میوزئیم اینڈ ریسرچ سینٹرمیں لگی ایک پینٹنگ۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کئی سال قبل ایک مبینہ یو ایف او حادثے کا جائے مقام بنا تھا۔فوٹو دس جون ، انیس سو ستانوے بشکریہ اے پی

لیکن دوسری جانب ایسے افراد بھی موجود ہیں جو نہ صرف اڑن طشتریاں دیکھنے کی بات کرتے ہیں بلکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے اڑن طشتری کو زمین پر اترتے اور اس میں سے چھوٹے قد کی ایک سبز رنگ کی مخلوق کو بھی نکلتے دیکھا جو کچھ دیر رکنے کے بعد واپس چلی گئی۔ ان دعوؤں کو اتنی قبولیت ملی کہ بعد ازاں ان پر سائنس فکشن فلمیں بنیں اور ان میں چھوٹے قد کی سبز رنگ کی مخلوق کو بھی دکھایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ اڑن طشتریاں خودکار طریقے سے پرواز کرتی ہیں؟ بہت سے سائنس دان اس کا جوا ب بھی نفی میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اڑن طشتریوں کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔ جنہیں وہ دکھائی دیتی ہیں وہ نظر کا دھوکہ یا ان کا واہمہ ہے۔

تاہم کئی امریکی پائلٹ اور بحریہ کے عہدے دار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے پرواز کے دوران اور سمندر میں سفر کرتے ہوئے نہ صرف اڑن طشتریوں کو دیکھا ہے بلکہ ان کی تصاویر بھی اتاری ہیں۔

دو سال قبل نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اڑن طشتریوں کی حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے امریکہ کے دفاعی ادارے پینٹاگان نے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی جس نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اڑن طشتریوں کی 120 تصویروں کا جائزہ لیا۔لیکن کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا کہ آیا یہ کسی دشمن ملک کے اڑنے والے سپر سانک آلات تھے یا کسی دوسری دنیا سے آنے والی نامعلوم چیزیں۔

امریکی بحریہ کے ایک پائلٹ نے پرواز کے دوران ایک اڑن طشتری کو دیکھا اور اس کی ویڈیو ریکارڈ کی۔ ویڈیو سے لی گئی تصویر میں اڑن طشتری نظر آ رہی ہے۔ 27 اپریل 2020
امریکی بحریہ کے ایک پائلٹ نے پرواز کے دوران ایک اڑن طشتری کو دیکھا اور اس کی ویڈیو ریکارڈ کی۔ ویڈیو سے لی گئی تصویر میں اڑن طشتری نظر آ رہی ہے۔ 27 اپریل 2020

اڑن طشتری کو سائنس کی اصطلاح میں یو ایف او یعنی Unidentified flying object کہا جاتا ہے یعنی اڑنے والی کوئی نامعلوم چیز۔ اڑن طشتریاں حالیہ عشروں میں ہی نظر آنا شروع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا ذکر ماضی بعید میں بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں اڑن طشتری نظر آنے کے سب سے پہلا واقعہ سکندر اعظم سے منسوب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے اس عظیم فاتح نے 329 قبل از مسیح میں خود اڑن طشتری کا مشاہدہ کیا تھا۔

اڑن طشتریوں سے متعلق خبروں پر نظر رکھنے والے امریکی ریاست واشنگٹن میں قائم ایک غیر سرکاری ادارے’ نیشنل یو ایف او رپورٹنگ سینٹر کے‘ مطابق دنیا بھر میں ہر سال اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے تقریباً سات ہزار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔

یہ ادارہ 1974 میں اپنے قائم ہونے کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 70 ہزار سے زیادہ واقعات کا اپنے ڈیٹا بیس میں اندراج کر چکا ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر اڑن طشتریوں کی کچھ تصویریں بھی دی گئیں ہیں جو زیادہ تر تکونی شکل کی ہیں اور ان میں سے روشنی پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس سال اپریل میں اڑن طشتریاں دیکھے جانے کی 333 اطلاعات موصول ہوئیں جب کہ 19 مئی تک مزید 522 واقعات کا اندراج ہو چکا تھا۔

اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے افراد صرف عام شہری اور طیاروں کے پائلٹ ہی نہیں ہیں بلکہ خلائی مہمات پر جانے والے خلابازوں نے بھی زمین کے مدار میں گردش کے دوران ان نامعلوم چمکتی ہوئی اشیا کو پرواز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ 1990 کی دہائی کے وسط تک اڑن طشتریاں نظر آنے کی اطلاع دینے والے خلابازوں کی تعداد 26 ہے۔

یہ فوٹو امریکی ائیر فورس کی جون انیس سو ستانوے کی ایک رپورٹ سے لی گئی ہے جس میں انیس سو سینتالیس میں نیو میکسیکو کے قصبے روزویل میں ایک مبینہ یو ایف او کے گرنے کے واقعے کا جائزہ لیا گیا تھا، فوٹو اے پی۔
یہ فوٹو امریکی ائیر فورس کی جون انیس سو ستانوے کی ایک رپورٹ سے لی گئی ہے جس میں انیس سو سینتالیس میں نیو میکسیکو کے قصبے روزویل میں ایک مبینہ یو ایف او کے گرنے کے واقعے کا جائزہ لیا گیا تھا، فوٹو اے پی۔

اگر تاریخ کے پیمانے پر اڑن طشتریوں کے واقعات کو پرکھا جائے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اڑن طشتریاں نظر آنے کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ راکٹ سازی کے شعبے میں ہونے والی ترقی ہے اور ممکنہ طور پر پائلٹ کے بغیر اڑنے والی اشیا کو اڑن طشتریاں سمجھ لیا گیا ہو گا۔

اڑن طشتریاں عام لوگوں کی طرح امریکی حکومت کی بھی توجہ کا خاص مرکز رہی ہیں جس کی زیادہ تر نوعیت دفاعی ہے۔ 1947 میں اڑن طشتریوں کے متعدد واقعات رپورٹ ہونے کے بعد 1948 میں امریکہ میں 1948 میں ایئرفورس نے اس پر ایک تحقیقی پراجیکٹ شروع کیا۔ آنے والے عشروں میں سی آئی اے اور محکمہ دفاع کے تحت بھی اس بارے میں تحقیقات ہوئیں جن کا عمومی نتیجہ یہ تھا کہ زمین سے باہر کسی دوسری مخلوق کا اڑن طشتریوں پر آنا بعید از قیاس ہے۔

اور اب ایک سال کی تحقیق کے بعد ناسا کے سائنس دانوں اور ماہرین نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ اس وقت تک زمین سے باہر کسی جاندار مخلوق کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ اگر اڑن طشتریوں کو کوئی چلا نہیں رہا ، اگران کا دکھائی دینا نظر کا دھوکہ نہیں ہے ، اگر وہ کسی سائنسی ادارے کے خفیہ مشن کا حصہ نہیں ہیں، اور اگر وہ مکمل طور پر خودمختار ہیں تو پھر وہ کہاں سے آتی ہیں اور کیوں آتی ہیں؟

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG