رسائی کے لنکس

نیٹو کے انخلا سے افغانستان میں ناکامی کا خطرہ


ایک نئی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں وہ تمام پیش رفت اور کامیابیاں زائل ہونے کا اندیشہ ہے جو غیر ملکی افواج نے گزشتہ ایک عشرے کی جنگ کے دوران میں وہاں حاصل کی ہیں۔

'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کی جانب سے یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب نیٹو ممالک کے سربراہان جنگِ افغانستان کے مستقبل پر غور کے لیے رواں ہفتے امریکی شہر شکاگو میں جمع ہورہے ہیں۔

'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کے جرمنی میں موجود نمائندے تھامس رٹیگ اپنے ادارے کی اس نئی رپورٹ کے بارے میں کہتےہیں کہ مغربی ممالک اور خود افغان حکومتوں کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں 1989ء کی تاریخ نہیں دہرائی جائے جب افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے نکلنے کے بعد اسے تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔

یورپی یونین کی سابق مشیر باربرا اسٹیپلٹن 'بیٹنگ دی ری ٹریٹ' یعنی "پسپائی میں فتح" نامی اس رپورٹ کی مصنفہ ہیں۔ رپورٹ میں نیٹو پر زور دیا گیا ہے کہ اگر وہ خطے میں سلامتی سے متعلق اپنے طویل المدتی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لچک دار حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔

رپورٹ کی مصنفہ کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی مقامی حکام کو منتقلی اس بات پر منحصر ہے کہ افغانستان میں سلامتی، ترقی اور انتظامی معاملات کی صورتِ حال کیا ہوگی۔

'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کا کہنا ہے کہ اس وقت اتحادی ممالک اپنے ایجنڈے کی تشکیل میں افغانستان کی ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھ رہے۔

رٹیگ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سیکیورٹی مقامی حکام کو منتقل کرنے کا جو نظام الاوقات ترتیب دیا گیا ہے وہ ان ممالک کی خواہشات کے مطابق ہے جن کی فوجیوں وہاں تعینات ہیں۔ ان کے بقول اس نظام الاوقات میں افغانستان کی برسرِ زمین صورتِ حال اور وہاں کے مقامی حالات کو مکمل طور پر مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔

اتحادی ممالک اعلان کرچکے ہیں کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجیں 2014ء تک ملک سے نکل جائیں گی اور نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز توقعات کے عین مطابق ملکی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت حاصل کر رہی ہیں۔

اس فوجی انخلا کی تفصیلات اتوار کو شکاگو میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں طے کیے جانے کی توقع ہے۔

رٹیگ کہتے ہیں کہ نیٹو ممالک کو انخلا سے قبل افغانستان میں موثر سیاسی اداروں کا قیام اور استحکام یقینی بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ان کے بقول اس سمت میں بنیادی کام پہلے ہی کیا جاچکا ہے اور اب اس جانب مزید پیش قدمی کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق وہاں ایک نسبتاً بہتر آئین تشکیل دیا جاچکا ہے۔ وہاں قوانین موجود ہیں جن میں ایک اجتماعی سیاسی نظام کے قیام کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ لیکن اس پیش رفت کا بیشتر حصہ تاحال کتابوں میں ہی ہے اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔

ڈیوڈ لونگ اسٹون لندن میں واقع تحقیقی ادارے 'چیٹم ہاؤس' کے ساتھ افغان امور کے ماہر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دنیا افغانستان میں سماجی بہبود اور زراعت، آب پاشی اور بجلی سمیت قومی ڈھانچے کو ترقی دینے کے مختلف منصوبوں میں طویل المدت اعانت جاری رکھے۔

ان کا کہناہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اسے اپنا مقصد بنا لینا چاہیے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اگر اس معاملے کو صحیح طور پر منظم نہیں کیا گیا تو 90 کی دہائی کی صورتِ حال اور مسائل دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG