رسائی کے لنکس

'مفروضے کی بنیاد پر دی گئی سزا برقرار نہیں رہ سکتی'


اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ’’نواز شریف خود بھی میاں شریف کے زیر کفالت ہو سکتے تھے، مشترکہ خاندانی نظام میں اگر بچے فلیٹس میں رہائش پذیر ہوں تو نیب کو بتانا پڑے گا وہ کس کے زیر کفالت ہیں، احتساب عدالت نے تو مفروضے کی بنیاد پر کہا بچے والد کے زیر کفالت ہیں‘‘

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شریف خاندان کی سزا معطلی کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ مفروضے کی بنیاد پر دی گئی سزا برقرار نہیں رہ سکتی۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے ریفرنسز منتقل کرنے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 20 اگست کو تحریری فیصلہ جاری کیا جا چکا ہے۔ نیب کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کی معطلی کی درخواست کی سماعت کی۔ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ میں غلط بیانی کرنے پر نیب پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے ریفرنسز منتقل کرنے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 20 اگست کو تحریری فیصلہ جاری کیا جا چکا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کا یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے، نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کل پیش ہو کر بتائیں کہ سپریم کورٹ میں یہ گمراہ کن بیان کس نے دیا۔

دوران سماعت عدالت نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کوئی ایسی دستاویز ہے جو نواز شریف کی لندن فلیٹس کی ملکیت ظاہر کرے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ نے ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نواز شریف خود بھی میاں شریف کے زیر کفالت ہو سکتے تھے، مشترکہ خاندانی نظام میں اگر بچے فلیٹس میں رہائش پذیر ہوں تو نیب کو بتانا پڑے گا وہ کس کے زیر کفالت ہیں، احتساب عدالت نے تو مفروضے کی بنیاد پر کہا بچے والد کے زیر کفالت ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ احتساب عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ عموماً بچے والدین کی زیر کفالت ہوتے ہیں، اس لیے نواز شریف مالک ہیں۔

ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا ثبوت پیش کیا گیا کہ بچے نواز شریف کے زیر کفالت تھے اور میاں شریف کے نہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایسا کوئی ثبوت یا دستاویز موجود نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت تھیں اور نواز شریف نے مریم کے نام پر جائیداد بنائیں، تو کیا مریم کو اثاثے چھپانے پر سزا سنائی گئی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کو ٹرائل کورٹ نے ’بینفشل اونر‘ قرار دے کر والد کی پراپرٹی چھپانے پر سزا سنائی۔ مریم کا کردار تو تب سامنے آئے گا جب نواز شریف کا اس پراپرٹی سے تعلق ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہے جو خود کہتا ہے کہ وہ مفروضے پر مبنی ہے۔ مفروضے کی بنیاد پر فوجداری سزا برقرار نہیں رہ سکتی۔ پہلے نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق ثابت ہوگا تو مریم نواز کا کردار آئے گا۔ جے آئی ٹی نے تو کہا ہے کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے جس سے نوازشریف کا فلیٹس سے تعلق ثابت ہو‘‘۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت جاری ہے۔ اس کیس میں نواز شریف کو 10 سال جبکہ مریم نواز کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG