رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو العزیزیہ کیس سے بری کر دیا


سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس سے عدالت پہلے ہی بری کر چکی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس سے عدالت پہلے ہی بری کر چکی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے اُنہیں بری کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رُکنی بینچ نے نواز شریف کی اپیل پر منگل کو سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کی اپیل منظور کرتے ہوئے اُنہیں کیس سے بری کر دیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق سزا کے خلاف اپیل منظور ہونے سے اب نواز شریف کے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

العزیزیہ کیس میں احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں 20، 20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریفرنس واپس نیب بھیجنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔

نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری ہونے کے بعد اب صرف العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ رہ گئے تھے۔ احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید اور 2.5 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف کی بریت پر ردِعمل دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف بنائے گئے جھوٹے کیسز اب اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔

دورانِ سماعت کیا ہوا؟

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق منگل کو سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ تو زیرِ کفالت ہیں۔ اگر اس سے متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تو یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں ریفرنس تیار کر کے دائر کرنے کی ہدایت کی۔ نیب نے اپنی تفتیش کی۔ اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے دو تین طریقے ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے جو شواہد اکٹھے کئے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کب بنی تھیں؟ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں۔ العزیزیہ میں پہلے بتائیں کتنے پیسے بھیجے کیسے بھیجے کب فیکٹری لگی؟ آپ پراسیکیوٹر تھے، بتائیں آپ کے پاس کیا شواہد تھے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ بتائیں کہ آپ نے کس بنیاد پر بار ثبوت ملزم پر منتقل کیا؟ کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہو گا؟ کوئی گواہ موجود ہو گا؟ زرا نشاندہی کریں۔

نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بتائیں وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں؟ جائیداد کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہو گا۔ آپ بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کو کیس سے بری کر دیا۔

العزیزیہ ریفرنس تھا کیا؟

سن 2016 میں پاناما پیپرز کے بعد احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے العزیزیہ اسٹیل مل قائم کی جس کے بعد 2005 میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔

نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے اور اس کے لیے پاکستان سے غیر قانونی رقم طور پر رقم حاصل کر کے اسٹیل مل پر سرمایہ لگایا گیا۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فی صد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG