رسائی کے لنکس

جرمنی : نازیوں کے سوبی بر ڈیتھ کیمپ کے ایک محافظ کے خلاف سماعت



نازیوں کے ڈیتھ کیمپ کے ایک سابق محافظ جان دمیانیوک کے خلاف مقدمے کی سماعت فروری کے شروع تک ملتوی کردی گئی ہے۔ پچھلے ہفتےمیونخ میں عدالت نے اس کیمپ کے زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کی سماعت کی تھی۔

عدالت نے 89 سالہ جان دمیانیوک کے خلاف، جس پر سوبی بر ڈیتھ کیمپ کے ایک محافظ ہونے کا الزام ہے، دو عینی شاہدین کی شہادتوں کی سماعت کی۔ دونوں گواہ 1943ء میں اس وقت نوعمر تھے جب انہیں نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ کے ایک بدنام ڈیتھ کیمپ بھیجا گیا تھا۔

سابق امریکی آٹو ورکر جان دمیانیوک پر 27900 افراد کے قتل تک رسائی دینے کا الزام ہے۔وہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

دمیانیوک کو گذشتہ سال مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے جرمنی بھیجا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر اسے طویل مدت کی قید ہوسکتی ہے۔

اگرچہ کسی گواہ کو یہ یاد نہیں ہے کہ اس نے واقعی دمیانیوک کو دیکھاتھا ، تاہم انہوں نے وہاںمتعین یوکرینی محافظوں کے ظلم و بربریت کے بارے میں بتایا ۔

تھامس بلاٹ نے جرمن زبان میں شہادت دی جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ 82 سالہ تھامس دوسری عالمی جنگ کے انتہائی بدنام ڈیتھ کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والا ایک شخص ہے۔ پیر کے روز اس نے عدالت کو بتایا کہ اسے کس طرح 1943 ء میں اس کیمپ میں بھیجا گیا تھا اور اسے وہاں کس قدر ہولناک واقعات دیکھنے پڑے۔

عدالت میں گواہی کے بعد اس نے وی او اے کو اپنے کچھ واقعات بتائے۔ اس نے بتایا کہ وہ 28 اپریل کو سوبی بر کیمپ پہنچا تھا اور وہ پولینڈ کے اسبیزا نامی ایک چھوٹے سے قصبے سے بھیجے جانے والے آخری دوسو یہودیوں میں شامل تھا۔ کیمپ پہنچنے کے فوراً ہی بعد جب انہیں ہلاک کرنے کے لیے گیس چیمبر بھیجا گیا تو ان میں سے صرف چند افراد کو بیگار کے لیے الگ کرلیا گیا تھااور ان چند خوش نصیبوںمیں وہ بھی شامل تھا۔ چھ ماہ تک سوبی بر کیمپ میں رہنے کے بعدوہ افراد نازیوں کو ہلاک کرکے وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

تھامس بلاٹ کی عمر اس وقت صرف ساڑھے 15 سال تھی جب اسے ایک مزور قیدی کے طور پر چنا گیا تھا۔ اسے جو کام کرنے پڑتے تھے ان میں گیس چیمبر بھیجی جانے والی عورتوں کے سر کے بال کاٹنا اور قتل کردیے جانے والے یہودیوں کی ذاتی اشیا اکھٹی کرنا شامل تھے۔

اسے ایک جنگل میں بھی کام کرنا پڑا جہاں سے کاٹی جانے والی لکڑیاں نعشوں کو جلانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ مسلسل خوف کی کیفیت میں زندگی گذارنا اور نازیوں کی ماتحتی میں کام کرنے والے Trevnicki کہلائے جانے والے یوکرینی محافظوں کی زیر نگرانی رہنا کس قدر اذیت ناک تھا جو اپنے نازی آقاؤں سے بھی زیادہ ظالم تھے۔

جان دمیانیوک پر الزام ہے کہ وہ بھی وہاں پر ایک محافظ تھا۔

تھامس بلاٹ نے بتایا کہ بہت سے لوگ بوڑھے، بیمار دمیانیوک کو ترس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ،اور ان کا خیال ہے کہ اسے معاف کردیا جانا چاہیے، لیکن میری سوچ مختلف ہے۔ میری نظروں کے سامنے اس کے ظلم ہیں اور وہ اذیتیں ہیں جو اس نے لوگوں کودیں۔ اور اگر جج یہ فیصلہ سنادیتا ہے کہ وہ اسی زمانے میں سوبی بر میں تھا جب میں وہاں تھا، تو میری نظروں میں وہ قاتل ہے۔

عدالت میں گواہی دینے والا دوسرا عینی شاہد 84 سالہ فلپ بیالووٹز تھا جوسوبی بر کیمپ میں سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اسے اور اس کے بھائی سے کیمپ میں بیگار لی جاتی تھی جب کہ اس کے باقی خاندان کو گیس چیمبر بھیج دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG