رسائی کے لنکس

بھارت: بہار اسمبلی کے انتخابات میں حکمران اتحاد پھر کامیاب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو ایک بار پھر اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کانگریس اور بائیں بازو کے اتحاد کو خلافِ توقع شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مبصرین کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ حزبِ اختلاف کے اتحاد کا پلڑا بھاری ہے۔ ایگزٹ پول میں بھی ان کی کامیابی کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ جب کہ آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو کے وزیرِ اعلیٰ بننے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

لیکن حکمران اتحاد اور حزبِ اختلاف کے درمیان کانٹے کی ٹکر میں بالآخر بازی حکمران اتحاد کے ہاتھ لگی۔ اسے 243 رکنی اسمبلی میں غیر حتمی نتائج کے مطابق 125 نشستیں حاصل ہو گئی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے اسے 122 نشستوں کی ضرورت تھی۔

آر جے ڈی کی قیادت میں اتحاد کو 110 اور دیگر کو آٹھ نشستیں ملی ہیں۔

پارٹی کے اعتبار سے دیکھیں تو بی جے پی کو 74، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو کو 43، آر جے ڈی کو 75، کانگریس کو 19 اور سی پی آئی ایم ایل کو 12 نشستیں ملی ہیں۔

اسد الدین اویسی کی جماعت 'آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین' نے پانچ نشستیں اپنے نام کی ہیں۔ 2015 میں اسے ایک نشست ملی تھی۔

جب کہ 2015 میں بی جے پی کو 53 اور جنتا دل یو کو 71 جب کہ آر جے ڈی کو 80 نشستیں ملی تھیں۔

اس بار دونوں محاذوں پر زبردست مقابلہ تھا۔ جب بدھ کی صبح ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو حزب اختلاف کے اتحاد کو سبقت حاصل تھی۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نشستیں کم اور این ڈی اے کی بڑھتی چلی گئیں۔

گجرات اور ہماچل پردیش کی اسمبلیوں کے انتخابات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:21 0:00

شام کے وقت حزبِ اختلاف کے اتحاد نے پھر سبقت حاصل کی لیکن 18 گھنٹے تک جاری گنتی کے آخر میں این ڈی اے کو فتح حاصل ہوئی۔

آر جے ڈی اور کانگریس نے ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ الیکشن کمشن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار رئیس احمد لالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کرونا وبا، لاک ڈاؤن، بہار میں آئے سیلاب اور دیگر متعدد وجوہات سے عوام ریاستی اور مرکزی حکومت سے ناراض تھے۔ لیکن اس کے باوجود این ڈی اے کو کامیابی ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ این ڈی اے نے ذات برادری کے حساب سے امیدوار اتارے اور کچھ ایسی حکمت عملی بنائی جو ہر حال میں کامیاب رہی۔

ان کے بقول نریندر مودی اور نتیش کمار نے اپنی کمیوں اور خامیوں کا اندازہ لگایا اور ان کے مطابق پالیسی اپنائی۔

ایک اور تجزیہ کار شاہین نظر کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کا جادو اب بھی برقرار ہے۔ حالاں کہ لاک ڈاون کے بعد بڑی تعداد میں مزدور پورے ملک سے بہار پہنچے تو ان کے اندر حکومت کے خلاف زبردست ناراضی موجود تھی اور آر جے ڈی لیڈر تیجسوی کے جلسوں میں عوام کی زبردست بھیڑ اکٹھی ہوتی تھی۔ لیکن بہر حال وہ بھیڑ ووٹوں میں تبدیل نہیں ہو سکی اور حکومت کے خلاف ناراضی کا حزبِ اختلاف کے اتحاد کو فائدہ نہیں پہنچا۔

دونوں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسد الدین اویسی کی پارٹی نے متعدد نشستوں پر حزبِ اختلاف کے اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ اگر وہ میدان میں نہ ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے۔

اسد الدین اویسی نے مسلم اکثریتی علاقے سیمانچل میں 20 امیدوار کھڑے کیے تھے۔

ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ سوشیل مودی اور متعدد بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عوام نے این ڈی اے کے ترقی کے ایجنڈے کو ووٹ دیا ہے اور انہوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے کاموں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

نتیش کمار ایک بار پھر وزیرِ اعلیٰ کا حلف لینے والے ہیں۔ وہ گزشتہ 15 برس سے ریاست میں حکومت کر رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG