نیپال کی حکومت اور حزبِ مخالف کے آپس میں اختلافات زوروں پر ہیں۔ پارلیمان میں حزبِ اختلاف کو اکثریت حاصل ہے۔
ملک کے وزیرِ اعظم نے ٹیلی ویژن پر نشری تقریر میں کہا ہے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، جب کہ لاکھوں ماؤنوازوں اور اُن کے حمایتیوں نے ریلیاں نکال کر اُن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
کاٹھمنڈو میں وائس آف امریکہ سے بات چیت میں ماؤنواز لیڈر نے اعتماد کےساتھ پیش گوئی کی کہ وہ کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر دوبارہ وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
ماؤنوازوں کے زیرِ اہتمام لاکھوں افراد نے یومِ مئی پر مارچ میں حصہ لیا۔ اُنھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ وزیرِ اعظم مادھیو کمار فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔
مسائل سے دوچار وزیرِ اعظم ماؤنوازوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مجوزہ ملک گیر ہڑتال کو منسوخ کردیں جس کے نتیجے میں تجارت اور کاروبار مفلوج ہو کر رہ جائیں گے۔
مسٹر نیپال کا کہنا ہے کہ حکومت کی قیادت اِس وقت اہم ہے اور اسے ہراساں کرنے، تشدد کرنے یا پھر ہڑتال کرنے جیسے حربوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔
اِسی دوران، ماؤ نواز لیڈر پیش گوئی کر رہے ہیں کہ حکومت چند روز میں اُن کی پارٹی کے مطالبات کو تسلیم کرلے گی۔
پشپ کمل دہل نے جنھیں بہتر طور پر پراچندا کے نام سے جانا جاتا ہے، وائس آف امریکہ نیوز کو بتایا کہ وہ یونائٹیڈ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤاسٹ) کے چیرمین کی حیثیت سے وزیرِ اعظم کے طور پر سامنے آئیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں ہماری پارٹی واحد اکثریتی جماعت ہے جس کے نتیجے میں ہمیں حکومت کی قیادت کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔ رہا سوال یہ کہ قیادت کون کرے تو ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ چیرمین خود حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔
پراچندا نے گذشتہ برس فوج کی قیادت اور سابق ماؤنواز چھاپہ ماروں کی فوج میں بھرتی کے طریقہٴ کار پر اختلاف کے باعث اپنے حلیفوں سمیت حکومت سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔
ماؤنواز اور نیپال کی دوسری دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
مذاکرات کے شرکا نے پہلے اِس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے اختلافات دور کر سکے ہیں اور یوں سیاسی بحران میں شدت کو روک سکتے ہیں۔
اِس صورتِٕ حال کے نتیجےمیں، دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل اِس ملک میں خانہ جنگی کی دوبارہ ابتدا کا امکان ہو سکتا ہے۔
نیپالی وزیر اعظم پُر اعتماد، جب کہ ماؤنواز رہنما دوبارہ قیادت کے خواہاں

مقبول ترین
1