یوم مئی کی ریلی سے قبل ماؤنوازوں کے ہزاروں حامی وزیر اعظم مادھو کمار نیپال کی حکومت گرانے کے ارادے سے نیپالی دارالحکومت میں اکھٹے ہورہے ہیں ۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے اِن شرائط کا ذکر کیا جِن پر وہ استعفی دینے کے لیے تیار ہیں۔
نیپال کے وزیر اعظم کو بھوٹان میں ہونے والی ایک علاقائی سربراہ کانفرنس کے بعد وطن واپسی پر ماؤنوازوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
بھوٹان سے ایک کمرشل طیارے کے ذریعے وطن واپسی پر دوران پرواز انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں مسٹر نیپال نے کہا کہ اگر ان کے جانے سے امن کا عمل تیز کرنے میں مدد مل سکتی ہو، جس میں نئے آئین کی تیاری بھی شامل ہے،اور جسے 28 مئی تک مکمل کیا جانا لازمی ہے، تو وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سامنے آتا ہے اور اٹھائے گئے سوالات پر اتقاق ہوجات ہے تو پھر یہ بہتر ہوگا کہ تمام لوگوں کی شمولیت کے ساتھ قومی اتقاق رائے کی حکومت قائم کی جائے۔
ماؤنواز پارٹی کے وائس چیئرمین بابورام بھٹارائی نے بعد میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ وزاعظم اپنے استعفے کے لیے کوئی شرط نہیں لگاسکتے اور بقول ان کے ،وہ لازمی طورپر اپنی کھٹ پتلی حکومت تحلیل کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت موجودہ مسئلے کے حل کے لیے آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اور اگر حکومت فی الوقعی سنجیدہ ہے تو اسے غیر مشروط طورپر مستعفی ہونا چاہیے۔
مسٹر نیپال کا متبادل یقینی طورپر کوئی ماؤنواز یا ان کی پسند کا کوئی وزیر اعظم ہوگا۔سابقہ باغیوں نے 2008ء میں قومی انتخابات جیتنے کے باوجود پچھلے سال اس تنازع پر حکومت چھوڑ دی تھی کہ سابق مسلح باغیوں کو کس طرح فوج کا حصہ بنایا جائے۔لیکن ماؤ نوازوں کے پاس اب بھی قومی پارلیمنٹ کی زیادہ تر نشستیں موجود ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک اتحادی حکومت کی قیادت کریں گے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں موجود ہزاروں ماؤ نواز پہلے ہی یوم مئی کے احتجاج کی تیاری کررہے ہیں ، جس کے بارے میں سابقہ باغیوں کا کہنا ہے کہ مظاہرہ پرامن ہوگا۔
وزیر اعظم نیپال نے وی او اے نیوز کو بتایا کہ احتجاج کے دوران سپاہی اپنے کیمپوں میں موجود رہیں گے ، لیکن اگر مظاہرے جمہوریت کے خطرہ بنے تو فوج کو طلب کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پر قبضے کا خطرہ ہوا اور امن کے عمل کو تشدد کا خوف درپیش ہوا تو پھر ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
ماؤ نوازوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبے نہ مانے گئے تو وہ اتوار کے روز سے غیر معینہ مدت کے لیے ملک گیر ہڑتال کریں گے۔
ماؤ نوازوں کی ایک عشرے کی خانہ جنگی 2006ء میں امن کا معاہدہ ہونے پر ختم ہوئی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ماؤنواز سیاست کے قومی دھارے میں داخل ہوئے اور 250 سالہ بادشاہت کا خاتمہ کرکےنیپال کو ایک جمہوری ملک بنانے کے عمل کی قیادت کی ۔