رسائی کے لنکس

'کانپیں ٹانگ گئیں': پاکستان میں کب کب سیاسی رہنماؤں کی زبان پھسلی؟


پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی اردو کی وجہ سے اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔اور ایک مرتبہ پھر وہ اپنی تقریر کے دوران اردو کے محاورے کی غلط ادائیگی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ ٹوئٹر پر ہزاروں ٹوئٹس کے ساتھ ان کے یہ الفاظ ''کانپیں ٹانگ رہی ہیں'' ٹاپ ٹرینڈ پر ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین بڑھ چڑھ کر اس ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہوئےمزاحیہ ٹوئٹس کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو کی جملے کی غلط ادائیگی کو انگریزی گرامر میں "spoonerism" کہا جاتا ہے۔ یعنی روانی میں ایک جیسی اٹھان یا واول (vowel) والے دو لگاتارالفاظ کے آگے پیچھے کے حصے آپس میں تبدیل ہوجائیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ 'جیلی بینز' کو 'بیلی جینز' کہہ جائیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کیا کہا؟

ستائیس فروری کو کراچی سے شروع ہونے والا پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ منگل کو اپنی منزل ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا۔ البتہ اپنی منزل پہنچنے سے قبل بلاول نے ایک تقریر میں حکومت پر تنقید کی اور جوش خطابت میں وہ کہہ بیٹھے جو بعد میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گیا۔

بلاول نے تقریر کے دوران اسلام آباد میں ''ٹانگیں کانپ رہی ہیں'' کو ''اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔'' کہہ دیا۔

پاکستان کےوفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جو مخالفین پر طنز کرنے میں کبھی نہیں چوکتے، پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ننھا منا لیڈر ایک ننھا منا مارچ لے کراسلام آ باد کے اوپر چڑھ گیا جس سے ہماری''کانپیں ٹانگ گئیں۔''

انہوں نے کہا جو ہماری زبان نہیں سمجھتے وہ ہمارے جذبات کیا سمجھیں گے۔

بلاول بھٹو کی زبان پھسلنا اور پاکستانی سوشل میڈیا

بلاول بھٹو کی زبان کیا پھسلی سوشل میڈیا صارفین کو بھی تفریح کا موقع ہاتھ لگ گیا۔

مہوش ملک نامی سوشل میڈیا صارف نے وصی شاہ کی غزل آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کے کچھ اشعار کو کچھ اس طرح تحریر کیا کہ؛

سمندر میں اترتا ہوں تو 'کانپیں ٹانگ' جاتی ہیں

تیری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو' کانپیں ٹانگ' جاتی ہیں

تیرے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے

مگر جب بھی گزرتا ہوں تو 'کانپیں ٹانگ' جاتی ہیں

حمزہ ملک نامی صارف نے بلاول کے ماضی میں کہے گئے جملے "جب بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے" کو ان کی حالیہ تقریر کے الفاظ کے ساتھ ملاتے ہوئےلکھا کہ'' جب ٹھنڈ آتا ہے تو ٹانگیں کانپتی ہیں جب زیادہ ٹھنڈ آتا ہے تو کانپیں ٹانگتی ہیں۔''

امینہ نامی صارف نے لکھا کہ جب بلاول نے پچھلی بار ''بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے'' کہا تھا تو ان کا دفاع یہ کہہ کر کیا تھا کہ انہوں نے اس بارے میں انگریزی اصطلاح کا حرف بحرف ترجمہ کیا ہے۔لیکن اب کانپیں ٹانگنے کا دفاع کیسے کریں؟

فہیم عالم نامی صارف نے آصف علی زرداری کی تصویر پر مبنی ایک میم شیئر کی جس پر لکھا تھا کہ "ایسی کانپیں رکھتے ہی نہیں جو ٹانگیں"'

ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ''کانپیں ٹانگنے جیسی حالت تو میری پروفیسر کے سامنے وائی وا دیتے ہوئے ہوتی ہے۔''

دوسری جانب پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی بدھ کو کراچی میں تقریر کرتے ہوئے سابق صدر اور بلاول کے والد آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''خدا کے واسطے اسے(اپنے بیٹے کو) اردو سکھاؤ ۔''

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے انگریزوں کو دو برسوں میں اردو سیکھتے دیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ کہتے ہوئے خود وزیراعظم کی زبان تھوڑی سی لڑکھڑا گئی تھی۔

اس کے جواب میں مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز شریف نے صحافی فاضل جمیلی کی شیئر کردہ ایک ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے سال 2018 میں عمران خان اس وقت کے صدر ممنون حسین سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لے رہے ہیں اور اس دوران ان کی زبان اٹکتی ہے اوران سے ''خاتم النبین'' کا لفظ درست ادا نہیں ہوتا۔ بعد ازاں وہ صدر کی جانب سے کہے گئے لفظ ''روزِ قیامت'' کو ''روزِ قیادت'' پڑھتےہیں جسے پھر سے درست کرایا جاتا ہے۔

پاکستان کی بدلتی سیاست اور زبان پھسلنا

پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کا بدلتے حالات کے ساتھ اپنے بیانات پر یوٹرن لینا نیا ہے نہ ہی ان کی زبان پھسلنا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید سابق وزیرِاطلاعات فردوس عاشق اعوان کو ماضی میں ''صاحب'' کہہ چکے ہیں جب کہ خود عمران خان اس سے قبل بلاول بھٹو کو ''صاحبہ'' کہنے پر تنقید کی زد میں رہ چکے ہیں۔ جواب میں بلاول بھٹو بھی انہیں ''خان صاحب سمجھتی ہیں'' کہہ چکے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایک مرتبہ میڈیا سے گفتگو میں خود اپنی ہی جماعت کا نعرہ غلط لگا دیا تھا اور پھر انہیں یہ کہتے دیکھا گیا تھا کہ ''کیا تھا صحیح نعرہ؟''

اسی طرح سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف جو لاہور میٹرو بس منصوبے کو اپنااعزاز سمجھتے ہیں ایک مرتبہ محمود ایاز کو بس میں کھڑا کرا ہی چکے تھے کہ انہیں یاد آیا کہ وہ بس نہیں ایک صف میں کھڑے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف ایک تقریر میں چھوٹے بھائی کے میٹرو بس منصوبے کو ''جنگلہ بس'' منصوبہ کہہ چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان ایک ٹرین منصوبے کے بارے میں یہ بتانا چاہتے ہوئے کہ یہ ''لائٹ کی اسپیڈ سے بھی تیز ''دوڑے گی یہ کہہ گئے کہ'' یہ اسپیڈ کی لائٹ سے بھی تیز ''ہوگی۔ اس سے قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہ پسماندہ علاقوں میں رقم خرچ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے سنے گئے کہ ''ہم نے میانوالی، ڈی جی خان اور چونسہ پرخرچ کرنا ہے'' انہوں نے بعد میں اپنا چونسہ تونسہ میں تبدیل کر دیا تھا۔

آصف علی زرداری بطور صدر بانی پاکستان کے مزار پر حاضری دینے آئے تو انہوں بانی پاکستان کو ''علیہ السلام'' کہتے ہوئے ان کی سالگرہ کو برسی کہہ گئے تو عمران خان اے پی ایس سانحے میں جان سے جانے والوں کی دوسری برسی پر پہنچ کر اسے سالگرہ بتانے لگے۔

آصف زرداری کی اپنی ہی پارٹی کے رہنما منظور وسان ایک بار میڈیا سے گفتگو میں انہیں''کو چیئرمین'' کے بجائے'' چور چئیرمین'' پکار چکے ہیں۔

زبان اپنی ہو یا پرائی کبھی نہ کبھی پھسل ہی جاتی ہے۔ مگر پاکستانی عوام کو مفت تفریح میسر آئے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اس کا امکان کم ہی ہے۔ بہت ممکن ہے جب تک آپ یہ تحریر پڑھیں'' #کانپیں ٹانگ رہی ہیں'' پر مزید کئی ہزار ٹوئٹس ہو چکی ہوں۔

اور یہ بتانا تو بھول ہی گئی بلاول بھٹو جب اسلام آباد کےڈی چوک پہنچے تو کنٹینر پر اپنے والد آصف علی زرداری کےساتھ کھڑےہوکر ایک اور دھواں دار تقریر کرڈالی اور اس بار وہ اسلام آباد کی ٹانگیں کامیابی سے کپکپانے میں کامیاب ہو گئے۔

انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''وزیراعظم کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ یہ وہی وزیراعظم ہے جو آپ کو کہتا رہا آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پیٹرول مہنگا، چینی مہنگی، آٹا مہنگا مگر آپ نے گھبرانا نہیں ہے مگر وزیراعظم اب آپ کے گھبرانے کا وقت آگیا ہے۔''

XS
SM
MD
LG