رسائی کے لنکس

دھڑے بندی کے باوجود، نئی فلسطینی حکومت نے حلف اٹھا لیا


فلسطینی صدر محمود عباس نے ہفتے کے روز نئی حکومت سے حلف لیا، جس کی قیادت ان کی طاقتور فتح پارٹی سے تعلق رکھنے والا حمایتی کرتا ہے، جس اقدام کو ان کی حریف حماس نے مسترد کیا ہے، جس سے اتحاد کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔

نئی تشکیل دی گئی حکومت میں معیشت دان اور عباس کے ایک دیرینہ مشیر، محمد اشتیہ وزیر اعظم ہوں گے۔

فلسطینی تھارٹی کی حکومت مغربی کنارے میں قائم ہے۔ وزیر خارجہ ریاض المالکی اور وزیر خزانہ شکری بشارہ اپنے عہدوں پر فائز رہیں گے۔

شتیہ کو 10 مارچ کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا، وہ رمی الحمد لی اللہ کی جگہ لے رہے ہیں۔ وہ وزارت داخلہ اور مذہبی امور کے قلمدانوں کی بھی نگرانی کریں گے، جب تک ان عہدوں پر نئے وزیر تعینات نہیں کیے جاتے۔

غزہ میں حکمراں متحارب حماس گروپ نے اس اقدام کو متحد ہونے کی کوششوں کے لیے نقصاندہ قرار دیا ہے۔

اتحاد کی کوشش کے لیےاکتوبر 2017ء میں دونوں نے قاہرہ میں ایک نئے مفاہمتی سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن اقتدار میں شراکت داری کے معاملے پر تنازعے کے نتیجے میں اس سمجھوتے پر عمل درآمد میں رکاوٹ پڑ چکی ہے۔

حلف برداری کی یہ تقریب اسرائیلی کنٹرول والے مغربی کنارے میں واقع رملہ کے شہر میں ہوئی۔

اس موقعے پر حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ''یہ علیحدگی پسند حکومت ہے، جسے کوئی قومی جواز حاصل نہیں ہے اور اس سے غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کے امکانات کو تقویت ملے گی''۔

عباس کی 'فلسطین لبریشن آرگنائزیشن' کے دو دھڑوں نے شتیہ کی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔

شتیہ کو جو فوری چیلنج درپیش ہے وہ فلسطینی اتھارٹی کو درکار نقدی کی کمی ہے، جسے عبوری امن معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ محدود خودمختاری حاصل ہے۔

امریکی امداد کی کٹوتی کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کو بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، جس کا اسرائیل کے ساتھ محصول کی ماہوار آمدن کا پانچ فی صد منتقل ہونے کے معاملےپر تنازع جاری ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ یہ رقم اس لیے اپنے پاس رکھتا ہے چونکہ اسرائیلی جیلوں میں بند حماس کے جنگجووں کے اہل خانہ کو ماہوار پیسے دینے ہوتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG