رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں جھڑپوں کی براہ راست کوریج پر پابندی، صحافیوں کا شدید رد عمل


بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جھڑپوں کی لائیو کوریج پر پابندی
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جھڑپوں کی لائیو کوریج پر پابندی

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کی مختلف انجمنوں نے پولیس کے اُس حکم نامے پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے، جس کے تحت شورش زدہ علاقے میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہونے کی صورت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے جائے وقوع پر جاکر کوریج کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار وجے کمار نے گزشتہ دنوں یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے ضلع پولیس سربراہوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ حکم عدولی کرنے والے صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئینِ ہند کی دفعہ 21 کے تحت تقریراور اظہارِ رائے کی آزادی کو مناسب پابندیوں سے مشروط کیا جاسکتا ہے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے اس ہفتے کے شروع میں میڈیا سے وابستہ افراد سے کہا تھا کہ وہ حفاظتی دستوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے انکاونٹر کی جگہ یا اُن کے بقول "امن و امان" کی صورتحال کے قریب نہ آئیں۔

دو مقامی خبر رساں اداروں کے ذریعے جاری کرائے گئے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا "میڈیا افراد کو کسی بھی تصادم یا امن و امان کی صورتحال کی براہ راست کوریج نہیں کرنی چاہئے۔ تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کو مناسب پابندیوں سے مشروط کیا جاسکتا ہے ۔ آرٹیکل 21 کے تحت کسی دوسرے شخص کی زندگی کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ انکاونٹر کی جگہ مصروفِ عمل پولیس اہلکاروں اور دوسرے حفاظتی دستوں کے جائز کام میں مداخلت نہ کریں"۔

پولیس عہدیدار نے بعد میں یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے تمام ضلعی پولیس سربراہوں کو تحریری ہدایت جاری کی ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ سے وابستہ کوئی فرد اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انکاؤنٹر سائٹ یا "امن و امان" کی صورتحال کے قریب آجائے تو وہ اُس کے خلاف حقائق کی بنیاد پر قانونی کارروائی کریں۔

پولیس افسر کے بیان پر کشمیری صحافیوں کا ردعمل

مقامی صحافیوں نے پولیس عہدیدار کے ان ریمارکس پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران اور امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہونے کی صورت میں جائے وقوع پرجاکر پولیس یا حفاظتی دستوں کے جائز کام میں مداخلت نہ کریں۔

کشمیر پریس فوٹو گرافرز ایسوسی ایشن کے صدر فاروق جاوید خان نے کہا "انسپکٹر جنرل نے اپنے بیان میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں، وہ ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہیں کیونکہ رپورٹرز یا کیمرہ پرسنز ایسے مقامات پر پولیس یا حفاظتی دستوں کے کام میں مداخلت کرنے نہیں بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے جاتے ہیں۔

کشمیر میں آزادی صحافت کو سلب کرنے کی تازہ کوشش؟

کشمیر پریس کلب اور مقامی صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے کہا ہے کہ نیا حکم نامہ دراصل بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی صحافت کو دبانے کے لیے حکومت اور اس کے مختلف اداروں اور ایجنسیز کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تازہ کڑی ہے۔

ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا "اگر یہ پولیس کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے، تو پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ صحافیوں کو زمینی حقائق کی وقائع نگاری سے باز رکھنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنا، بلکہ انہیں مجبور کرنا ہے"۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے "جموں و کشمیر میں صحافیوں پر قدغنیں لگانا ، ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالنا اور انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ انہیں پولیس اسٹیشنوں میں طلب کرنا ، ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کرنا اور ان کے کام کے لیے ان سے وضاحتیں طلب کرنے کا عمل ماضی قریب میں شدت اختیار کرگیا ہے"

پولیس کے اس حکم نامے کا کیا اثر ہوگا؟

پولیس کی طرف سے جاری کئے گئے تازہ حکم نامے سے صحافیوں کے کام پر کیا اثر پڑے گا؟ ۔

اس سوال کے جواب میں سرکردہ صحافی اور کشمیر یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل عنایت جہانگیر نے وی او اے کو بتایا" اس سے صحافیوں بالخصوص سمعی اور بصری یعنی آڈیو، وژول میڈیا سے وابستہ افراد کے کام پر بہت برا اور منفی اثرپڑے گا۔ متعلقہ حکام نے چند سال پہلے انکاؤنٹرز کے مقامات کے ارد گرد کے ایک کلو میٹر کے علاقے کو ممنوعہ اورناقابلِ رسائی قرار دیا تھا ۔ اب یہ دائرہ مزید کتنا وسیع کردیا گیا ہے یہ واضح نہیں۔ بہرحال یہ بے معنی ہے۔ تازہ حکم نامے کا اصل مقصد صحافیوں پر عائد قدغنوں کو مزید بڑھانا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا "تازہ پابندی لگانے کے نتیجے میں جائے وقوع سے معروضی اور متوازن رپورٹنگ نہیں ہو پائے گی کیونکہ جب آپ گراونڈ پر نہیں جا پائیں گے ،لوگوں کے تاثرات نہیں جان پائیں گے اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کی صحیح معلومات حاصل نہیں کر پائیں گے، جس کے کئی پہلو ہوتے ہیں، تو آپ کو پولیس یا حکام کے یکطرفہ بیانات پر اکتفا کرنا پڑے گا اور اسی کو خبر بنانا پڑے گا ۔ اس طرح رپورٹنگ پر ان کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی اور یہی اس تازہ فرمان کا مقصد و مدعا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ "میرے خیال میں اس سے متوازن ، معروضی اور غیر جانبدارصحافت متاثر ہوگی ، جس کی آبیاری کے لیے یہاں کے صحافیوں نےگزشتہ تین دہائیوں کے دوراں نامساعد حالات کے باوجود حتی الامکان کوشش کی ہے"۔۔

کیا صحافیوں کی موجودگی شرپسندوں کو تشدد کے لیے اکسانے کا موجب بنتی ہے؟

بھارتی سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز اور عوامی مظاہروں کی جگہوں پر ذرائع ابلاغ خاص طور پر فوٹو اور ویڈیو گرافروں کی موجودگی ان کے بقول شر پسندوں کو اکسانے کا سبب بن جاتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے کئی ایسا میڈیا کیمروں میں فلم بند ہونے کے لئے کرتے ہیں، تاکہ اسے بیرونی دنیا دیکھ سکے ۔ بقول ان کے اس طرح سیکیورٹی فورسز کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔

تاہم میڈیا تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 میں شورش کے آغاز کے ساتھ ہی علاقے کے صحافیوں کے لیے ہر ایک دن جدوجہد سے بھرپور بن گیا اور انہیں اپنا آپ تلوار کی دھار پر نظر آیا۔

5 اگست 2019 کے بعد جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کردی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دیدیا، تو مکمل انفارمیشن بلیک آؤٹ، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے ان کے لیے کام کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ۔

کشمیر کی صحافتی تنظیموں کے مطابق، گزشتہ بیس ماہ کے دوران کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں پولیس تھانوں یا پولیس افسران کے سامنے پیش ہوکر اپنی رپورٹس اور خبر سازی کے عمل کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے اور اپنے سورسز یا ذرائعِ خبر کو افشا کرنے کے لیے ان پر دباو ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

صحافیوں کی سر راہ مارپیٹ کرنے کے متعدد واقعات بھی پیش آئے ہیں ۔کئی صحافیوں کو جرنلسٹس کوٹا کے تحت فراہم کی گئی رہائشی سہولیات بغیروجہ بتائےواپس لے لی گئیں اور کئی مقامی اخبارات کو سرکاری اشتہارات جار ی کرنا بند کردیا گیا یا انہیں اس فہرست سے خارج کردیا گیا جسکے تحت یہ اشتہارات جاری کئے جاتے ہیں۔

جون 2020 میں حکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی بنائی، جس کے تحت اسے "جعلی" ، "غیر اخلاقی"، مضمون، خیال یا عبارت کی چوریً یا "ملک دشمن" خبروں کے متعلق فیصلہ کرنے کا مجاز بنایا گیا تھا اور حکومت کو ذرائع ابلاغ کے متعلقہ ادارے، صحافی اور مدیران کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کا ا ختیار بھی حاصل ہوگیا تھا۔

فوری سزا میں سرکاری اشتہارات روکنا اور متعلقہ صحافی یا ادارے کے بارے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو مطلع کرنا بھی شامل تھا۔

اگرچہ پولیس اور حکومتی اداروں کی ان کارروائیوں کے خلاف کشمیر ، بھارت اور عالمی سطح پر میڈیا کے صحافتی حلقوں میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے صحافی ان حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حکومت کا الزامات سے انکار

تاہم بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سرکاری عہدیداروں نے اس سخت گیر میڈیا پالیسی کا دفاع کیا تھا ۔ جموں و کشمیر انتظامیہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا "جموں و کشمیر میں امن و امان اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں، یہ سرحد پار سے حمایت یافتہ در پردہ جنگ سے لڑ رہا ہے، اور ایسی صورتحال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے امن کو خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا جائےً۔

جموں و کشمیر انتظامیہ کا موقف ہے کہ علاقے میں میڈیا کو اپنا کام کسی دھونس یا دباوٴ کے بغیر سر انجام دینے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG