رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی دو خواتین امیدواروں کی نشستوں پر گنتی روک دی گئی


جموں و کشمیر میں ہونے والے ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کی نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
جموں و کشمیر میں ہونے والے ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کی نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلی بار ہونے والے ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کے بعد اکثر نشستوں کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔ لیکن حکام نے دو ایسی نشستوں پر ووٹوں کی گنتی روک دی ہے جہاں سے پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو خواتین نے الیکشن لڑا تھا۔

یہ خواتین امیدوار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ پھر ان کی شادیاں بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق عسکریت پسندوں سے ہو گئیں۔

جموں و کشمیر الیکشن کمیشن کے مقامی ریٹرننگ آفیسرز نے ان نشستوں پر ووٹنگ روکنے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن مقامی ذرائع کہا کہنا ہے کہ صومیہ صدف اور شازیہ اسلم نامی امیدواروں کے بارے میں ان کے حریفوں نے حکام سے شکایت کی تھی کہ انہوں نے کاغذات میں غلط معلومات درج کی تھیں۔

لہٰذا امیدواروں کی جانب سے ان خواتین کی شہریت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بعد ووٹوں کی گنتی روک دی گئی ہے۔

ایک مقامی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ معاملہ بھارت کی وزارتِ داخلہ کے نوٹس میں لایا گیا ہے اور وزارت کی طرف سے جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

'ووٹوں کی گنتی روکنا افسوس ناک ہے'

صومیہ صدف کا کہنا ہے کہ اگر ان کی شہریت متنازع ہے، جو حقیقت کے خلاف ہے، اور اگر کسی کو ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر اعتراض تھا تو ان کے کاغذاتِ نامزدگی پہلے کیوں قبول کیے گئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس طرح کے اعتراضات اب اٹھائے جا رہے ہیں۔ میں نے الیکشن مہم بھرپور انداز میں چلائی۔ اس پر میرا کافی پیسہ بھی خرچ ہوا۔ میں ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت کی محبت، اعتماد اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ آپ یہ الیکشن لڑ ہی نہیں سکتی تھیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔"

"میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر مظفر آباد میں پیدا ضرور ہوئی تھی اور وہیں بارھویں جماعت تک تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر میں یہاں آ گئی۔ میں پاکستانی ہوں اور نہ ہندوستانی۔ بلکہ میں کشمیری ہوں۔ اس لیے مجھے ریاست میں کہیں بھی اور کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔"

صومیہ صدف
صومیہ صدف

صومیہ صدف نے کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے درگمولہ حلقے میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزمائی کی ہے۔ اس حلقے سے 10 دوسرے امیدوار بھی میدان میں تھے، جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔

شازیہ اسلم جموں و کشمیر کے ایک اور سرحدی ضلع بانڈی پور کے حاجن۔اے حلقے سے آزاد امیدوار ہیں۔ ان کے ووٹوں کی گنتی بھی منگل کو اس اطلاع کے ساتھ روک دی گئی تھی کہ ان کے حریف امیدواروں نے ان کی شہریت پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔

شازیہ اسلم نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ وہ عزت کی زندگی جینا چاہتی ہیں جس کی انہیں اجازت دی جانی چاہیے۔

صومیہ صدف کی طرح شازیہ کا تعلق بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔ ان کی شادی تقریباً 15 برس پہلے بانڈی پور کے ایک سابق عسکریت پسند سے ہوئی تھی۔

انتخابات میں کامیاب امیدوار مبارک باد وصول کر رہے ہیں۔
انتخابات میں کامیاب امیدوار مبارک باد وصول کر رہے ہیں۔

شازیہ اور صومیہ پاکستانی کشمیر سے بھارتی کشمیر کیسے پہنچیں؟

شازیہ اور صومیہ دونوں ان 200 کے لگ بھگ خواتین میں شامل ہیں جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بیاہی گئی تھیں۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ جموں و کشمیر کی اس وقت کی حکومت کی اعلان کردہ 'باز آبادکاری پالیسی' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے شوہروں اور بچوں کے ہمراہ نیپال کے راستے سے بھارتی کشمیر پہنچی تھیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی سابق مخلوط حکومت نے، جس کی قیادت عمر عبداللہ کر رہے تھے، 2010 میں بھارتی وزارتِ داخلہ کی منظوری سے اُن مقامی نوجوانوں کی وطن واپسی اور آبادکاری کے لیے ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا جو 1990 کی دہائی میں عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گئے تھے اور لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر یا اس سے آگے چلے گئے تھے۔

ان نوجوانوں میں سے اکثر نے وہاں مقامی خواتین کے ساتھ شادیاں کیں اور گھر بسائے تھے۔

عہدے داروں کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے 1082 افراد نے آبادکاری پالیسی کے تحت گھر لوٹنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ حکومت نے ان میں سے صرف 219 کو منظور کیا تھا۔ یہ افراد اور ان کے کنبے 2010 اور 2012 کے درمیان بھارتی کشمیر پہنچے تھے۔

لیکن بھارتی حکومت پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین اور ان کے بچوں کی شہریت کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔ ان خواتین میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ سفری دستاویزات کی عدم موجودگی میں وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سفر نہیں کر سکتیں۔ جس کے باعث وہ اور ان کے بچے عملاً بے وطن ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی مرتبہ سڑکوں پر آ کر مظاہرے بھی کیے ہیں۔

انتخابات کے نتائج کے اعلان کے دوران وادی میں سیکیورٹی سخت ہے۔ (فائل فوٹو)
انتخابات کے نتائج کے اعلان کے دوران وادی میں سیکیورٹی سخت ہے۔ (فائل فوٹو)

ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کے نتائج

جموں و کشمیر کے ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں 280 نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی تھی۔ اب تک کے نتائج کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے قائم اتحاد 'پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلیریشن' (پی اے جی ڈی) نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے، جو 'پی اے جی ڈی' کی نائب صدر بھی ہیں، ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے غیر آئینی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔

محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ عوام نے ایک جذبے کے ساتھ 'پی اے جی ڈی'، کو، جو خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، کامیابی دلائی ہے۔ اتحاد کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور دوسرے رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

تاہم اس اتحاد کی حریف اور بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی کافی نشستیں لی ہیں۔ بالخصوص جموں میں اسے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔

اب تک کے نتائج کے مطابق 110 نشستیں پی اے جی ڈی کے حق میں گئی ہیں جب کہ 74 نشستوں پر بی جے پی کو فاتح قرار دیا گیا ہے۔ درجن بھر نشستوں پر ووٹوں کی گنتی اب بھی جاری ہے۔ کانگریس پارٹی اور آزاد امیدواروں نے بھی تقریباً 40 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG