رسائی کے لنکس

کراچی میں 'مانگنے' کا نیا انداز


صنعتی و معاشی اعتبار سے کراچی جہاں ہر خاص و عام کیلئے روزگار کا ایک اہم مسکن ہے وہیں گداگر اور مختلف طریقوں سے عوام سے پیسے بٹورنے والے بہروپیوں کیلئے بھی یہ شہر کسی ’جنت‘ سے کم نہیں۔

افطاری سے کچھ وقت قبل مسز مبین کے گھر کی گھنٹی بجی تو انہوں نے بے اختیار کہا اجی چھوڑو کوئی 'فقیر یا مانگنے والا' ہوگا مگر کئی بار دروازے کی گھنٹی نے انھیں دروازے پر جانے تک مجبور کردیا، دروازے پر پہنچ کر جب انھوں نے پوچھا کون ہے تو جواب ملا ؟

باجی اللہ کے نام پر زکوٰة یا فطرانہ دیدیں۔ مسز مبین بولیں دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئی مانگنے والا ہوگا، دروازے کے باہر موجود نوجوان لڑکا بولا ’باجی میں فقیر نہیں ہوں بلکہ ایک فلاحی تنظیم کا کارکن ہوں‘۔

دروازہ کھلنے پر جیسے کسی ریڈیو کی طرح بجنے لگا، ’باجی رمضان کی زکوٰة اورفطرہ ہمیں دیدیں ہم غریبوں اور مستحق بیمار لوگوں کی اس سے مدد کریں گے‘۔ منع کرنے کے باوجود نوجوان کچھ نہ کچھ پیسے لینے کیلئے ضد کرتا رہا تھک ہار کر انہوں نے ایک دس روپے کا نوٹ اسے تھما کر اپنی جان چھڑائی۔

گنجان آبادی والے شہر کراچی میں یہ کسی ایک گھر کا حال نہیں ہے۔ رمضان المبارک آتے ہی چھوٹی چھوٹی فلاحی تنظیموں کے کارندوں نے ہر محلے اور ہر علاقے میں گھر گھر جاکر زکوٰة اور فطرانے کے نام پر رقم بٹورنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ افراد ہاتھوں میں کسی این جی اوز کی رسیدیں اور کاغذات ساتھ لاکر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔

صنعتی و معاشی اعتبار سے کراچی شہر جہاں ہر خاص و عام کیلئے روزگار کا ایک اہم مسکن ہے وہیں گداگر اور مختلف طریقوں سے عوام سے پیسے بٹورنے والے بہروپیوں کیلئے بھی یہ شہر کسی ’جنت‘ سے کم نہیں۔

پاکستان کی اہم سماجی تنظیم ایدھی فاونڈیشن کے ترجمان انوار کاظمی وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ، ’جیسے ہی رمضان کا مہینہ آتا ہے وہ تنظیمیں زکوٰة اور فطرانے کیلئے زیادہ فعال نظر آتی ہیں جو سال بھر کچھ نہیں کرتیں۔ اُنکا کام نہ ہونےکے برابر ہوتا ہے یہ بھی عوام سے مانگنے کا ایک نیا طریقہ معاشرے میں ہم دیکھ رہے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’رمضان میں بہت سی این جی اوز لاکھوں روپے کے اشتہارات دیتی ہیں جیسے ہم روزانہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ عوام میں اخبارات کے ذریعے تشہیر چاہتے ہیں‘۔

مشہور کالم نگار پروفیسر رئیس فاطمہ اس حوالے سے نمائندہ سے تبادلہ خیال میں کہتی ہیں کہ، ’رمضان میں فلاحی اداروں کے نام پر مانگنے والے یہ افراد مذہب کا لبادہ اوڑھ کر نکل آتے ہیں یہ بھی ایک طرح کی بھتہ خوری اور غنڈہ گردی ہے جو ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں‘۔

رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ موبائل پر ایسے پیغامات روز کا معمول بن گئے ہیں جبکہ گھر گھر جاکر بیل بجاکر زکوٰة کے نام پر پیسے مانگے جارہے ہیں جن میں کوئی غریب بچوں کی کتابوں، بیماروں کے علاج اور دیگر حربے بتاکر رقم بٹور رہے ہیں بہت سے سادہ لوح افراد ان کی باتوں میں جلدی آجاتے ہیں‘۔

بقول ان کے، ’افسوس کے ساتھ ہماری کوئی حکومت ان چیزوں پر توجہ نہیں دیتی جبکہ ملک کے نامی گرامی علماء بھی اپنی توجہ اس طرف نہیں کرتے کہ ان سے مذہبی اداروں کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے۔ تھوڑی زمہ داری میڈیا کی بھی ہے کہ ایسے اشتہارات چھاپنے کیلئے پیسے تو لے لئےجاتے ہیں مگر اسکے پیچھے کون لوگ کارفرما ہیں یہ نہیں دیکھا جاتا‘۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہاں گداگر اپنے اپنے ٹھکانے سنبھال لیتے ہیں وہیں چھوٹی چھوٹی فلاحی تنظیمیں بھی زیادہ سے زیادہ عوام سے زکوٰة اور عطیات لینے کیلئے سرگرم ہوجاتی ہیں‘۔

اخبارات اور رسائل میں اشتہارات کی بھرمار

فلاحی اداروں کیلئے سب سے اہم ذریعہ اشتہار شہر میں شائع ہونے والے ہر چھوٹے بڑے انگریزی اور اردو کے اخبارات ہیں جن میں روزانہ کے حساب سے ایسے بڑے بڑے اشتہارات چھپتے ہیں اور قارئین کی نظروں سے گزرتے ہیں جن میں اکثر بےبس و لاچار بچوں اور افراد کی تصاویر سمیت زکوٰة کی اپیلیں درج ہوتی ہیں۔

دینی اداروں کے نام پر رقم مانگنا

گداگری اور فلاحی اداروں کے نام ہر رقم مانگنے کے ساتھ ساتھ بہت سے بہروپیئے دینی اداروں مساجد اور مدارس کے نام پر بھی رقم کا مطالبہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شہر کے بازار اور گلیاں ان افراد کا اہم مرکز ہیں یہ لوگ ہاتھوں میں کسی ادارے کا جعلی سرٹفکٹ اٹھائے کچھ نا کچھ رقم مانگتے ہیں جن کو روکنے والا کوئی نہیں۔

زکوٰة اور عطیات کیلئے سائن بورڈز اور ہورڈنگز کا سہارا

رمضان کے مہینے کے آغاز سے قبل ہی شہر کی ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر فلاحی تنظیموں کے بڑے بڑے ہورڈنگز بورڈز آویزاں نظر آتے ہیں جن پر مخیر حضرات سے اپنے اپنے زکوت اور فطرہ دینے کی اپیلیں درج ہوتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG