رسائی کے لنکس

رات کا طوطا ایک صدی کے بعد پھر ظاہر ہو گیا


رات کا طوطا، کے متعلق یہ خیال تھا کہ اس کی نسل ختم ہو گئی ہے کیونکہ وہ کئی عشروں کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اب اسے آسٹریلیا میں دوبارہ دکھائی دیا ہے۔ اتنا عرصہ وہ کہاں غائب رہا۔ فی الحال کسی کو معلوم نہیں۔

ایک سو سال تک نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ’ رات کا طوطا‘ ایک بار پھر دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ دوسرے کئی جانوروں کی طرح اس کی نسل بھی ختم ہو چکی ہے۔

رات کا طوطا ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، طوطوں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رات کے طوطے کی نسل تقریباً 33 لاکھ سال پہلے دوسرے طوطوں سے الگ ہو گئی تھی۔

اسے رات کا طوطا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ عام طوطوں اور پرندوں کے برعکس خوراک کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ اپنی اس عادت کے لحاظ سے وہ الو کے زیادہ قریب ہے۔

رات کا طوطا بہت ہی کم یاب پرندہ ہے۔ اندازہ گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں اس نسل کے محض 50 سے 249 تک پرندے موجود ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ آسٹریلیا کے علاقے کوئنزلینڈ میں پایا جاتا ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں اس کم یاب پرندے کو اسی علاقے میں دیکھا گیا ہے۔

رات کے طوطے کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔ کیونکہ وہ 1912 کے بعد سے کہیں بھی دیکھا نہیں جا رہا تھا۔

اپنی جسامت ، رنگت اور ساخت کے اعتبار سے وہ سبز رنگ کے عام طوطوں سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے پروں کا رنگ زردی مائل سبز ہوتا ہے جس میں کہیں کہیں کالی دھاریاں بھی ہوتی ہیں۔

سن 2012 میں سمتھ سونیئن میگزین نے اس نسل کے طوطوں کا ذکر دنیا کے سب سے پراسرار پرندوں کے طور پر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کی نسل بہت محدود ہے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کے طوطے کی خوراک جنگلی گھاس کے بیج ہیں۔ اس کی مادہ دو سے چار تک انڈے دیتی ہے ۔ یہ پرندہ اپنے گھونسلہ جنگلی گھاس سے گھری کھائیوں میں بناتا ہے تاکہ اس کا کھوج نہ لگایا جا سکے۔

رات کا طوطا دوبارہ دریافت ہونے کے بعد اب اس پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں ہمارے پاس اس کے بارے میں نہ صرف بہت سی معلومات موجود ہوں گی بلکہ اس کی نسل بھی بڑھ چکی ہو گی کیونکہ وہ ان پرندوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نسل کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ایک صدی کی گمشدگی کے بعد اسے ایک آسٹریلوی فوٹوگرافر جان ینگ نے دریافت کا اور اس پر اسرار پرندے کی نہ صرف کئی تصویریں اتاریں بلکہ اس کی 17 سیکنڈ کی ویڈیو بھی ریکارڈ کی۔ لیکن یہ کامیابی اسے اتفاقیہ نہیں ملی، بلکہ اس کے لیے ینگ کو لگ بھگ 15 سال تک آسٹریلیا کے جنگلوں کی خاک چھاننی پڑی۔

ہوا یہ کہ جان ینگ اور جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق آسٹریلیا کے ایک سائنس دان کیتھ بل شامبرز کوئنز لینڈ کے جنگل میں ایک چھوٹے پرندے ’زیبرا فنچ‘ پر تحقیق کے لیے مواد اکھٹا کر رہے تھے کہ انہیں وہاں ایک زردی مائل سبز پرندے کا پر ملا۔

جان ینگ کہتے ہیں کہ کیتھ اور میں نفنچ کے گھونسلے کھنگال رہے تھے کہ اچانک ایک گھونسلے میں ہمیں زردی مائل سبز رنگ کا پر ملا۔

وہ کہتے ہیں یہ ہمارے لیے ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ ہم نے اس پرندے کے بارے میں سن رکھا تھا اور اس کی کچھ دھندلی سی تصویریں بھی دیکھی ہوئیں تھیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس پرندے کا دنیا سے مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔

ینگ کہتے ہیں کہ مجھے اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں تھا کہ یہ پر غائب ہونے والے ’ رات کے طوطے ‘کا ہے۔

یہ واقعہ سن 2013 کا ہے۔ لیکن اس پر تحقیق اور تصدیق کے بعد 2015 میں آسٹریلیا کے میڈیا پر اس دریافت کا اعلان کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھی رات کا طوطا دیکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG