رسائی کے لنکس

عالمی امن اور غیرریاستی عناصر: نائن الیون کے دس سال بعد


President Barack Obama, right, first lady Michelle Obama, second from right, former President George W. Bush, second from left, and former first lady Laura Bush observe a moment of silence at the National September 11 Memorial for a ceremony marking the 1
President Barack Obama, right, first lady Michelle Obama, second from right, former President George W. Bush, second from left, and former first lady Laura Bush observe a moment of silence at the National September 11 Memorial for a ceremony marking the 1

ڈاکٹر تنویر احمد خان نے کہا ہے کہ نان سٹیٹ اکیٹرز کا ’بظاہر کوئی عالمی ایجنڈا نہیں‘ اور یہ مختلف ریاستوں میں اپنے مفادات کے لیے متحارب نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے مثال دی کہ ایک ہی دن پاکستان کے شہر کوئٹہ اور بھارت کے دارلحکومت دہلی میں بم دھماکے ہوئے۔ دونوں طرف جو عناصر ملوث ہو سکتے ہیں اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی مذہبی و نظریاتی میل ہے

اغواٴ برائے تاوان، انسانی سمگلنگ اور اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ جیسے ذرائع کو اپنی آمدن بنانے والے ’متشدد غیر ریاستی عناصر‘، بقول مبصرین، تقریبا ً ہراُس جگہ مصروفِ کار ہوتے ہیں جہاں عالمی برادری کو ریاستوں کے اندر سیاسی عدم استحکام یا انسانی بحرانوں کا سامنا ہوتا ہے۔

اِن غیر ریاستی عناصر نے دنیا کو فی زمانہ کس قدر نقصان پہنچایا ہے؟ امریکہ پر نائن الیون 2001 ءکے دہشت گرد حملے کے بعد امریکہ کی قیادت میں عالمی برادری نے جس بڑے پیمانے پر اِن دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کے لیے لیے اقدامات کیے ہیں وہ کس حد تک موٴثر رہے ہیں؟ آج جب نائن الیون کو دس سال پورے ہوگئے اور دنیا کا مطلوب ترین شخص جسے غالباً دنیا کا سب سے بڑا نان سٹیٹ ایکٹر بھی کہا جا سکتا ہے، پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں مارا جا چکا ہے، اِن حالات میں یہ نان سٹیٹ ایکٹرز دنیا کے امن کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں؟ اور دنیا نے اپنی سکیورٹی کو کس حد تک بہتر بنایا ہے؟ اِس موضوع اور اِن سوالات کے ساتھ ’وائس آف امریکہ‘ ریڈیو نے ایک مجلسِ مذاکرہ کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹیڈیز کے سربراہ تنویر احمد خان، سکیورٹی امور کے ماہر اور سٹریفور کےنائن صدر کامران بخاری، ہاورڈ یونیورسٹی کے نیوکلیرنان پرولیفریشن کے ایکسپرٹ میتھیوبن اور بین الاقوامی قانون کی ماہر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائیریکٹر رافعہ زکریا نے شرکت کی۔

تنویراحمد خان کے بقول ، امریکہ پر 11/9 کا حملہ دہشتگردوں کی بہیمانہ کارروائی تھی مگر امریکہ کا جوابا ًٍافغانستان پر حملہ ہزاروں بے گناہوں کی ہلاکت کا سبب بنا۔ یہاں تک کہ پاکستان کوبھی 35 ہزارزندگیوں کی صورت میں قیمت ادا کرنا پڑی۔ اس سے خطے میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ نان سٹیٹ اکیٹرز کا بظاہر کوئی عالمی ایجنڈا نہیں اور یہ مختلف ریاستوں میں اپنے مفادات کے لیے متحارب نظر آتے ہیں۔ جیسے گزشتہ دنوں ایک ہی دن پاکستان کے شہر کوئٹہ اور بھارت کے دارلحکومت دہلی میں بم دھماکے ہوئے۔ دونوں طرف جو عناصر ملوث ہو سکتے ہیں اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی مذہبی و نظریاتی میل ہے۔

کامران بخاری نے کہا کہ نائن الیون کے بعد افغانستاں میں جنگ کا فیصلہ اگرچہ بڑی عجلت میں کیا گیا اور بن لادن کی ایک کمانڈو آپریشن میں ہلاکت کے بعد یہ سوال اٹھائے گئے کہ، اُن کے بقول، امریکہ دنیا کو جنگ میں جھونکنے کی بجائے خفیہ معلومات کی بنیاد پر سرجیکل آپریشن کے ذریعے بھی تو مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتا تھا۔ مگر، کامران بخاری کے مطابق، افغانستان میں طالبان کے ہوتے ہوئے ایسا آسان نہ ہوتا، لہذا، افغانستان پر حملے کے فیصلے کو یکسر غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے مستقبل کے سوال کا جواب مختلف ممالک اور خطوں کے لیے مختلف ہے مگر امریکہ بظاہر محفوط ہو گیا ہے اور اس نے القاعدہ اور طالبان کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔

رافعہ زکریا کا کہنا تھا کہ آج کے حالات میں نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائیوں کی ریاستوں کے لیے اہمیت اپنی جگہ، عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ان غیر ریاستی عناصرکی سرکوبی ضروری سہی مگر ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو ان کارروائیوں کے دوران بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت اعتراضات ہیں۔ اس لیے کافی پیچیدہ معاملہ ہے مگر اس کے لیے عالمی سطح پر قوانین میں تبدیلی کی جانی چاہیئے۔

جوہری عدم پھیلاو سے جڑے امور کے امریکی ماہر میتھیو بن نے کہا کہ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرزاس وقت دنیا کے امن کے لیے بے حد خطرناک ہوسکتے ہیں جب ان کی پہنچ ایٹمی ہتھیاروں تک ہو جائے ، مگرفی الوقت دنیا بھر میں جوہری ہتھیاررکھنے والے ممالک میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سخت ہے اور بظاہر ان عناصر کے وہاں تک پہنچنے کے امکانات بے حد کم ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں القاعدہ افغانستان کے صحراوٴں کے جوہری تجربات کی کوششیں کرتی رہی ہے مگر امریکہ نے نائن الیون کے بعد اس تنظیم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی چوٹی کے قائدین کی اکثریت یا توماری جا چکی ہے یا گرفتار ہو چکی ہے۔

میتھیو بن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جوہری نظام بھی محفوظ ہے مگر اس بات کے خدشات ہروقت رہتے ہیں کہ اس نظام میں کوئی جھول نہ آ جائے۔ اس حوالے سے فوجی تنصیبات پر دہشتگردوں کے حالیہ برسوں میں حملے خطرے کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان اور روس میں بھی غیرریاستی عناصر جوہری ہتھیاروں تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر ’ان سائیڈرز‘ پر نظر رکھی جائے۔ ان تنصیبات کی حفاظت کرنے والوں کی مستقل سکریننگ اور مانیٹرنگ ہونی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز اوردیگر تعلیمی اداروں میں لبارٹریوں میں جاری سرگرمیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG