رسائی کے لنکس

19 بین الاقوامی این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت


گزشتہ برس بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیو دی چلڈرن کے دفتر سیل کر دیا گیا تھا
گزشتہ برس بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیو دی چلڈرن کے دفتر سیل کر دیا گیا تھا

سرور باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این جی اوز کے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ملک کے بیشتر حصوں میں عالمی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں 19 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک میں کام کرنے اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق اس سلسلے میں قائم کی گئی کمیٹی ان 19 بین الاقوامی این جی اوز کو اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے کی باضابطہ اجازت دینے کا عمل ایک ہفتے کے اندر مکمل کر لے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال حکومت نے ملک میں کام کرنے والی عالمی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق ایک قومی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

اکتوبر میں جاری کی گئی نئی پالیسی کے تحت تمام بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کو ساٹھ روز میں اپنے اندارج کے لیے از سر نو درخواست دینے کا کہا گیا تھا۔

تاہم امدادی ممالک، مقامی و بین الاقوامی تنظیموں اور بعض قانون سازوں کی جانب سے اس پر شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔

ان کا مؤقف تھا کہ حکومت سلامتی خدشات کو بنیاد بنا عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو ان علاقوں میں کام کرنے سے روک رہی ہے جو پہلے سے ہی پسماندہ ہیں اور جہاں سرکاری خدمات نا ہونے کے برابر ہیں۔۔

وزیر داخلہ نے اس موقع پر کہا تھا ملک میں صرف 19 تنظیمیں ایسی ہیں جو حکومت کی باضابطہ اجازت کے ساتھ ملک میں کام کر رہی ہیں جبکہ بیسیوں تنظمیں بغیر اجازت کے ملک کے مختلف حصوں میں کام کر رہی تھیں جنہیں کسی ضابطہ کار میں لانا ضروری تھا۔

اس موقع پر صوبوں سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے کوائف جمع کریں اور ان کے اندراج کے نظام کو منظم بنائیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم پتن کے قومی کوآرڈینیٹر سرور باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ملک کے بیشتر حصوں میں عالمی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

’’بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں کسی کو بھی کام نہیں کرنے دیا جا رہا اس میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سول سوسائٹی فورم ہوا جس میں تمام پاکستان سے جو این جی اوز آئیں انہوں نے یہ شکایت کی ہے کہ اجازت نامے کے نام پر بہت زیادہ پابندیاں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا مزید بتایا کہ ’’اگر آپ نے پریس کانفرنس بھی کرنی ہے تو پریس کلب والے آپ کو کلب کرائے پر نہیں دیتے، وہ کہتے ہیں کہ پہلے اجازت نامہ لے کر آئیں۔ یہ مذاق ہے اور اس پر بالکل احتجاج ہوا ہے اور مزید ہونا چاہیئے۔ ہمیں سپریم کورٹ جانا پڑا تو وہاں بھی جانا چاہیئے۔‘‘

سرور باری کا کہنا تھا کہ اگر کسی پراجیکٹ کو حکومت منظوری دے دے تو اس سے متعلقہ تمام سرگرمیوں کے لیے علیحدہ اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ہر چیز کے لیے اجازت نامہ مانگنا شہریوں کے انجمن سازی کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملک میں سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی بلکہ قانون کے مطابق چلنے والی تنظیموں کے کام سہل بنانا چاہتی ہے۔

وزیر داخلہ بقول نئی پالیسی کا مقصد محض اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غیر سرکاری تنظیموں طے شدہ دائرۂ کار اور علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

XS
SM
MD
LG