رسائی کے لنکس

'بلاگرز پر توہین مذہب کے الزامات کے کوئی شواہد نہیں'


پاکستان میں حکام نے عدالت عالیہ کو بتایا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں لاپتا ہونے والے پانچ بلاگرز پر توہین مذہب کے الز امات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

سماجی میڈیا پر مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اسے پانچ بلاگرز کی خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے۔

سماجی میڈیا پر سرگرم پانچ بلاگرز کے خلاف درخواست دائر کرنے والے شخص کی طرف سے پیش ہونے والے و کیل طارق اسد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ "ایف آئی اے کے عہدیداروں نے عدالت کو بتایا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ پانچ بلاگرز توہین مذہب میں ملوث نہیں تھے۔"

طارق اسد نے مزید کہا کہ جج نے کہا کہ کسی بھی معصوم شخص کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں ملوث نہیں کیا جانا چاہیے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے دوران سماعت کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے کسی سے متعلق توہین مذہب سے متعلق مواد پوسٹ کرنے کے جھوٹے الزامات عائد کیے وہ" دوہرے جرم" کے مرتکب ہوئے۔

واضح رہے کہ جنوری 2017ء میں سماجی میڈیا پر سرگرم یہ کارکنان اچانک لاپتا ہوگئے تھے جو ملک میں عدم برداشت اور دیگر سماجی و سیاسی امور کے متعلق اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے بعض مقتدر اداروں کی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتے تھے۔

انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے پانچ بلاگرز سلمان حیدر، وقاص گورایہ، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس ملک کے مختلف شہروں سے لاپتا ہو ئے تھے جن میں سے چار بعد ازاں اپنے گھروں کو واپس آ گئے تھے۔

کسی بھی گروپ نے ان کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور ملک کے انٹیلی جنس اداروں اور حکومت نے بھی ان کی گمشدگی میں کسی طرح ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

ان بلاگر کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کی خلاف سماجی میڈیا پر ایسی مہم شروع ہو گئی تھی جس میں ان پر توہین مذہب کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور اس کے غلط استعمال کے کئی واقعات کے منطر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظمیں اور سرگرم کارکن اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے پر زور دیتے آ رہے ہیں۔

رواں سال اگست میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارلیمان کو تجویز دی تھی کہ ملک میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایسی قانون سازی کی جائے جس میں توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی کڑی سزا دی جا سکے۔

ملک میں رائج قانون کے مطابق توہین مذہب کی سزا موت ہے جب کہ کسی پر جھوٹا الزام لگانے کی سزا چھ ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔

XS
SM
MD
LG