رسائی کے لنکس

یومِ شہدائے کشمیر: اب بھارتی کشمیر میں تعطیل نہیں ہوا کرے گی


ایک کمسن کشمیری لڑکا سرینگر کے خواجہ بازار علاقے میں واقع 13 جولائی 1931ء کے شہدا کی قبروں پر گلباری کرتے ہوئے۔ (فائل)
ایک کمسن کشمیری لڑکا سرینگر کے خواجہ بازار علاقے میں واقع 13 جولائی 1931ء کے شہدا کی قبروں پر گلباری کرتے ہوئے۔ (فائل)

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے ایک اور متنازعہ فیصلے کے تحت شہدائے کشمیر کی یاد میں 13 جولائی کو منائی جانے والی سرکاری تعطیل ختم کر دی ہے۔

جموں و کشمیر حکومت نے سال 2020ء کے لیے جو کیلنڈر جاری کیا ہے اُس میں 5 دسمبر کو کشمیری لیڈر شیخ محمد عبد اللہ کے یومِ پیدائش کی چھٹی کو بھی منسوخ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، 26 اکتوبر کو 'یومِ الحاق' کے موقعے پر سرکاری تعطیل منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 1947ء میں اس دن ریاست کے مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کے اس فیصلے کی تائید و حمایت کی تھی۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے یومِ پیدائش پر تطیل منانے سے انکار

تاہم، حکومت نے ریاست کے جموں خطے کی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے اس مطالبے کو نہیں مانا کہ 23 ستمبر کو، جو مہاراجہ ہری سنگھ کا یومِ پیدائش ہے، عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ہم خیال تنظیمیں اس مطالبے کی تائید کرتیآئی ہیں۔ ڈوگرہ مہاراجوں کا تعلق جموں سے تھا۔

جموں و کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں 'نیگوشیبل انسٹرومینٹ ایکٹ 1881' کے تحت کیلنڈر 2020ء کے لیے سرکاری تعطیلات کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اس میں سب سے پہلے 13 جولائی کی تعطیل ختم کر دی گئی ہے۔

یومِ شہدائے کشمیر کب اور کیوں منایا جاتا ہے؟

13 جولائی 1931ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج نے سری نگر کی مرکزی جیل کے باہر نہتے کشمیریوں پر گولی چلائی تھی، جس کے نتیجے میں 22 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ یہ لوگ ایک غیر مقامی شخص عبدالقدیر خان پر بغاوت کے الزام میں چلائے جانے والے 'ان کیمرہ' مقدمے کے سلسلے میں جیل کے باہر جمع ہوئے تھے۔

عبدالقدیر نے جو کشمیر کی سیاحت پر آئے ہوئے ایک برطانوی شہری کے ساتھ خانساماں کے طور پر سرینگر آیا ہوا تھا شہر کی خانقاہِ معلیٰ میں منعقدہ جمعے کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو مہاراجہ کی حکومت کے "ظلم و جبر" کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے کہا تھا اور مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی ہر اینٹھ کو اکھاڑ کر اسے زمین بوس کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر پیش آنے والے خونریزی کے واقعے کے پس منظر میں 13 جولائی کو یومِ شہدائے کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن کشمیر کے دونوں حصوں میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور یہ عام تعطیل کا دن بھی ہے۔ ریاست کے باہر بھی، بالخصوص پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں اس دن کو بڑے احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

جموں و کشمیر کے پرچم میں شہدائے کشمیر کے خون کی جھلک

جموں و کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی پوزیشن کے خاتمے اور ریاست کو براہِ راست نئی دہلی کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے 5 اگست کے فیصلے پر اس سال 31 اکتوبر سے باضابطہ عملدرآمد ہونے سے پہلے ریاست کا اپنا آئین اور پرچم تھے۔ اس پرچم کا رنگ سرخ تھا جو 13 جولائی 1931 کے شہدا کے خون کی عکاسی کرتا تھا۔ تاہم، بعد میں اسے مزدوروں اور محنت کشوں کی ترجمانی کی علامت کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔

کشمیریوں کے احساسات و جذبات کو ٹھیس

13 جولائی کی چھٹی کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر کشمیریوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ان کی تاریخ کو مسخ کرنے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ایک اور دانستہ کوشش قرار دیا ہے۔ سرینگر کے ایک شہری عبد المجید بانڈے نے بتایا "5 اگست کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو اس کے عوام کی مرضی کے خلاف ختم کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیرِ انتظام علاقے بنا دیا۔ تازہ فیصلہ اس زخم پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ وہ کشمیری مسلمانوں کو پشت بہ دیوار کر رہے ہیں"۔

سرکردہ مورخ اور مصنف ڈاکٹر عبد الاحد نے کہا "تاریخ کے تمام جائز اور قابلِ قبول اصولوں، نکتہ ہائے نظر اور حقائق کے تحت سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے وہ لوگ شہدا کے طور پر یاد کیے جانے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک مطلق العنان حکمران اور اس کی جابر و ظالم انتظامیہ کے خلاف اپنی آواز اُٹھائی تھی''۔

بغاوت کسی مذہب کے خلاف نہیں تھی

ڈاکٹر عبد الاحد نے جو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، مزید کہا "کشمیر میں 1931 میں مطلق العنانی اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیے جانے کی طرز پر ہندوستان کی کئی دوسری راج گان ریاستوں اور رایوں میں بھی مزاحمتی تحاریک کا آغاز ہوچکا تھا ۔ اس لیے کشمیریوں کی یہ تحریک کسی مذہب کے خلاف تھی اور نہ مہاراجہ کے خلاف اس لیے چلائی گئی کہ وہ عقیدے سے ایک ہندو تھا۔ یہ تحریک بھارت کے خلاف ہرگز نہ تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ 13 جولائی کی تعطیل کو ختم کرنا ہماری تاریخ کی توہین ہے"۔

کشمیریوں کی نفسیات پر تازہ وار

سابق ہائی کورٹ جج اور کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے حکومت کے فیصلے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "دونوں (13 جولائی اور 5 دسمبر کی تعطیلات کو ختم کرنا) مذموم کوششیں ہیں۔ یہ جموں و کشمیر کے عوام کی نفسیات پر وار ہے۔ وہ ان کی بے عزتی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات ہماری تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ کشمیری عوام کے جذبات و احساسات ان واقعات سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ 5 اگست کو لیے گیے فیصلوں کے تسلسل میں اٹھایا گیا اقدام ہے۔"

انہوں نے یہ بھی کہا "یہ محض دو چھٹیاں ختم کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جو واقعات اور جو دن آپ کو عزیز ہیں ہم اُن کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ انہیں قابلِ حقارت سمجھتے ہیں۔"

مہاراجہ ہری سنگھ ایک 'انصاف پسند ' حکمران تھا؟

تاہم، بی جے پی اور ہمخیال سیاسی جماعتوں کا استدلال ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ جموں و کشمیر کا جائز حکمران تھا جسے قبولِ عام حاصل تھا اور اُس کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت مذہبی اور علاقائی عصبیت پر مبنی تھی۔ جموں کے ڈوگرے بھی ہری سنگھ کو ایک فہیم، اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل اور انصاف پسند حکمران سمجھتے ہیں۔

بی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے ترجمان بریگیڈئیر (ر) انیل گپتا نے حکومت کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا "13 جولائی 1931 کو جو لوگ سرینگر سنٹرل جیل کے باہر مارے گیے انہیں پوری ریاست میں شہدا تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے وہ شہید ہیں اور کچھ کے لیے بلوائی۔"

اقلیتی کشمیری پنڈت فرقہ بھی ایک متضاد سیاسی نظریے کا حامل ہے۔ اس کا الزام ہے کہ 88 برس پہلے مطلق العنان ڈوگرہ حکمران کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی طرف سے شروع کی گئی جدوجہد کے ساتھ ہی اکثریتی فرقے کے ہاتھوں انہیں دِق کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ 1990 سے جب مقامی مسلمانوں کی طرف سے مسلح جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیری پنڈتوں کی اکثریت وادی کشمیر کو چھوڑ کر چلی گئی۔ ان کی تنظیمیں 13 جولائی کو 'یومِ سیاہ' کے طور پر مناتی چلی آئی ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG