رسائی کے لنکس

کیا افغانستان امریکہ کی ترجیح نہیں رہا؟


  • افغانستان کے ساتھ وسیع سیاسی اور معاشی تعلقات رکھنے والا ازبکستان مغربی ممالک اور بین الاقوامی برداری پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں۔
  • مبصرین کے مطابق افغانستان میں خواتین کے حقوق کا تحفظ امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے تاہم اس سے متعلق اہداف کا حصول آسان نہیں۔
  • افغانستان سے امریکہ کے انخلا کو تقریباً تین برس ہو چکے ہیں اور امریکی حکام کا اصرار ہے کہ انہوں نے افغانستان کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔

وسطی ایشیا کے ممالک توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والی ’سی فائیو پلس وون سمٹ‘ میں کیے گئے وعدوں کے مطابق افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ ان توقعات میں افغان عوام کے لیے مزید امداد، تجارت کے پھیلاؤ میں معاونت اور افغانستان سے ابھرنے والے دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ شامل ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے مزید امداد ازبکستان کے راستے بھیجی جائے گی۔ اس کے علاوہ امریکہ علاقائی کنیکٹیوٹی کے منصوبوں کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں کو مزید عسکری امداد کی پیش کش بھی کرسکتا ہے۔

وسطی ایشیا کے ممالک میں سے کسی نے تاحال افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ البتہ یہ ممالک دفاع، تجارت اور آبی وسائل جیسے شعبوں میں مشترکہ مفادات کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ وسیع سیاسی اور معاشی تعلقات رکھنے والا ازبکستان مغربی ممالک اور بین الاقوامی برداری پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں۔

افغانستان سے امریکہ کے انخلا کو تقریباً تین برس ہو چکے ہیں اور امریکی حکام کا اصرار ہے کہ انہوں نے افغانستان کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر وہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہونے والی مشاورت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب روس اور یوکرین جنگ جیسے دیگر مسائل واشنگٹن کی ترجیحات میں شامل ہو گئے ہیں۔

افغانستان، پاکستان اور وسطیٰ ایشیا کے لیے امریکی محکمہ دفاع کے سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری اور سفارت کار ڈیوڈ سیڈنی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس حقیقت سے سنبھلنے میں ایک یا دو دہائیاں لگ جائیں گی کہ وہ افغانستان میں جنگ ہار گیا تھا۔

وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’’ویت نام کے ساتھ مثبت انداز میں آگے بڑھنے میں ہمیں 20 سال لگ گئے تھے۔‘‘

واضح رہے کہ شمالی ویت نام پر کمیونسٹوں کا کنٹرول قائم ہونے کے بعد امریکہ نے ایشیا میں کمیونزم کو روکنے کے لیے جنوبی ویت نام کی مالی اور عسکری مدد کی تھی۔

امریکہ نے اس جنگ میں اپنی فوج بھی بھیجی اور دو دہائیوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں شامل رہنے کے بعد 1973 میں ویت نام سے اپنی فوج واپس بلا لی تھی۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں افغانستان اینڈ سینٹرل ایشیا پروگرام کے سربراہ اسکاٹ ورڈن کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیائی حکومتوں نے افغانستان میں امریکہ کے کردار سے متعلق زیادہ خوش فہمی کا مظاہرہ کیا ہے۔

وی او اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس وقت کئی اہم معاملات ہیں۔ امریکہ توازن کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

ان کے مطابق افغانستان میں خواتین کے حقوق کا تحفظ امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے تاہم اس سے متعلق اہداف کا حصول آسان نہیں۔

ورڈن کا کہنا ہے: ’’یہ بہت مشکل صورتِ حال ہے۔ میرے خیال میں انسانی بنیادوں پر امداد کو مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی معاشی پابندی آخر کار افغان شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرے گی جن کی ہم مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گا اور میرے خیال میں کوئی ایسا کوئی حربہ یا رسوخ کا طریقہ باقی نہیں رہا جس کا استعمال کیا جا سکتا ہو۔‘‘

امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک نے اپنی شراکت دار تنظیموں کے ذریعے امداد طالبان حکام کو شامل کیے بغیر براہ راست افغان شہریوں تک پہنچانے کے مختلف طریقے نکال لیے ہیں۔

یو ایس اے آئی ڈی کے مطابق امریکہ مالی سال 2024 میں افغانستان کی انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے آٹھ کروڑ سے زائد رقم فراہم کر چکا ہے۔ اگست 2021 سے اب تک افغانستان کے لیے ہونے والی فنڈنگ دو ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں یو ایس اے آئی ڈی بیورو آف ہیومینیٹرین ایڈ کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ تقریباً 55 کروڑ ڈالر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بیورو آف پاپولیشن، ریفوجیز اینڈ مائیگریشن کے تحت دیے گئے۔

یو ایس اے آئی ڈی کے مطابق بین الاقوامی شراکت داروں کے ذریعے یہ امداد براہ راست ضرورت مند افراد کو پہنچائی گئی ہے جس میں خوراک اور نقد امداد، غذائیت، صحت، بچوں اور خواتین کے تحفظ، اور افغان شہریوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی شعبوں میں تعاون جیسے پروگرام شامل ہیں۔

سیڈنی کی طرح ورڈن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان سے متعلق امریکہ کی ترجیحات کے بارے میں حققیت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ یا دیگر بین الاقوامی شراکت دار جب بھی طالبان سے بات کرنا چاہیں تو ان کے پاس اس کے بے پناہ مواقع ہوں گے۔

تاہم وسطیٰ ایشیا کے امور کے ماہر اور سینٹر ایشیا اینڈ کاکسس انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین فریڈریک اسٹار کا کہنا ہے کہ افغانستان کو اس وقت بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اسٹار زور دیتے ہیں کہ افغانستان خطے میں استحکام اور سلامتی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور امریکہ نے بھی یہی اہداف حاصل کرنے میں تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

سیڈنی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ہی نہیں دیگر مغربی ممالک کے کسی دارالحکومت میں بہت کم ہی افغانستان کی بات ہوتی ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکن فارن پالیسی کونسل سے بات کرتے ہوئے ان ماہرین نے زور دیا تھا کہ امریکہ کی دو دہائیوں تک افغانستان میں موجودگی اس پر یہ لازم کرتی ہے کہ وہ موجودہ حالات سے بڑھ کر اقدامات کرے۔

فریڈریک اسٹار قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ بالخصوص تجارت، توانائی اور آبی وسائل کے شعبوں میں کیے گئے اقدامات کی تائید کرتے ہیں۔

تاہم دیگر مبصرین طالبان اور تاجکستان کے درمیان کشیدگی سے خبردار کرتے ہیں۔ تاجکستان سرکاری طور پر نینشل رزسٹنس فرنٹ کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک طالبان مخالف مسلح اتحاد ہے جو افغانستان کی سابق حکومت کا حامی ہے اور افغانستان میں گوریلا کارروائیاں کر رہا ہے۔

تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں اب بھی سابق افغان حکومت کا تعینات کردہ سفیر موجود ہے۔

ورڈن کئی ایسے امور کی نشاندہی کرتے ہیں جو امریکہ اور خطے کے ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم مقصد دہشت گردی کا مقابلہ اور یہ یقینی بنانا ہے کہ افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے کے لیے دوبارہ کبھی استعمال نہ ہو۔

امریکی یرغمالوں کی رہائی، خواتین کے حقوق اور امدادی کارکنان سمیت ان افغان باشندوں کا انخلا جنھیں امریکہ نے افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا، امداد کی فراہمی اور معاشی ترقی جیسے اہداف بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

ورڈن کے مطابق ان اہداف کے علاوہ شاید جو سب سے اہم ہدف ہے وہ ایسی شرائط اور توقعات سے متعلق بین الاقوامی اتفاق رائے برقرار رکھنا ہے جس کے دباؤ سے طالبان کو ایسی سوسائٹی کے قیام پر مجبور کیا جا سکتا ہو جس میں ہر طبقے کی آزادیاں محفوظ ہوں اور وہ اپنے ہمسایوں اور امریکہ کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ ابھی تک کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم ان کے مطابق امریکہ اور مغربی اتحادی افغانستان میں صرف انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر زور دے رہے ہیں جب کہ اس کے ہمسایہ ممالک کے معاشی اور دفاعی تحفظات ان مطالبات سے الگ سمت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:30 0:00

ورڈن کے مطابق امریکہ امداد اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے ’خاموشی‘ سے کام کرنے کی پالیسی پر کار بند ہے جب کہ دوسری جانب طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے مؤقف پر سختی سے قائم ہے۔

لیکن یہ دہری حکمتِ عملی کب تک جاری رہ سکتی ہے؟ اس بارے میں ورڈن کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خلیج میں اضافہ ہو گا کیوں کہ خطے کے ممالک کو اپنے سیکیورٹی اور معاشی مفادات کے لیے افغانستان کے ساتھ بات کرنا پڑے گی۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کریں گے کہ وہ طالبان کو پسند کرنے لگ جائیں گے بلکہ ان سے بات کرنا نہ کرنے سے بہتر ہو گا۔

ورڈن کا کہنا ہے کہ آئندہ برس امریکہ کا صدر کوئی بھی ہو، اگر کوئی بہت بڑا بحران درپیش نہیں ہوتا تو افغانستان کی جانب امریکہ کے متوجہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

امریکہ میں مقیم افغان صحافی سمیع مہدی کہتے ہیں کہ ایران، روس اور چین جیسے امریکہ کے حریفوں کے ساتھ طالبان کے قریبی تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک امریکہ کی مدد سے بہت کم نتائج برآمد ہوئے ہیں اور طالبان اتنے ہی شدت پسند اور خطرناک ہیں جتنے وہ 1990 کی دہائی میں تھے۔

سمیع مہدی تجویز دیتے ہیں کہ امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

امریکن فارن پالیسی کونسل میں ان کا کہنا تھا’’ افغانستان کے بارے میں زیادہ معلومات کی فراہمی اور مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔ ہم اب امریکی حکومت سے افغانستان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں سنتے۔‘‘

(وائس آف امریکہ کے لیے نو بہار اماموف کی رپورٹ)

فورم

XS
SM
MD
LG