رسائی کے لنکس

صدر بائیڈن کے سالانہ خطاب میں افغانستان کا ذکر کیوں نہیں تھا؟


امریکی صدر جو بائیڈن 7 فروری 2023 کو واشنگٹن میں یو ایس کیپیٹل میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کررہے ہیں، ان کے ساتھ نائب صدر کملا ہیرس اورایون کے ریپبلکن اسپیکر کیون میککارتھی ہیں ۔ فائل فوٹو
امریکی صدر جو بائیڈن 7 فروری 2023 کو واشنگٹن میں یو ایس کیپیٹل میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کررہے ہیں، ان کے ساتھ نائب صدر کملا ہیرس اورایون کے ریپبلکن اسپیکر کیون میککارتھی ہیں ۔ فائل فوٹو

امریکہ میں حزب مخالف کے ریپبلکنز سمیت متعدد تجزیہ کاروں نےاس بات کو نوٹ کیا ہےکہ صدر بائیڈن نے اپنے دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں افغانستان کا ذکر نہیں کیا۔

ریپبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا،’’ صدر بائیڈن بظاہر افغانستان کو بھول گئے ہیں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے اتحادی اب بھی اس کی تباہ کن انخلاء کے صدمے سے دوچار ہیں اور دہشت گرد دشمنوں کو حوصلہ ملا ہے۔‘‘

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’افغانستان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ‘‘۔

ریپبلکن رکن کانگریس مائیکل مککول، ، امریکہ کے لیے سابق افغان سفیر رویا رحمانی اور ایواں کے اسپیکر کیون مکارتھی۔
ریپبلکن رکن کانگریس مائیکل مککول، ، امریکہ کے لیے سابق افغان سفیر رویا رحمانی اور ایواں کے اسپیکر کیون مکارتھی۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس نے اس موضوع پر افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر جیمز کننگھم کا انٹرویو کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ آف دی یونین میں افغانستان کا تذکرہ نہ کیا جانا امریکی پالیسی کا مظہر نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ اور امریکی کانگریس میں افغانستان اور افغان عوام کے لیے اب بھی وسیع پیمانے پرحمایت موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ’’ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ اور بدقسمتی سے اب یہ خطرہ ہے کہ ایوان نمائندگان میں ایک نئی ریپبلکن چھوٹی اکثریت کی وجہ سے افغانستان ایک سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے، کیونکہ ریپبلکن سیاسی مقاصد کے لیے انخلاء کے دوران بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں‘‘۔

پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ کم ہو جائے گا: رابن رافیل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

تاہم افغانستان میں سابق امریکی سفیر جیمز کننگھم نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز امریکی پالیسی کو تبدیل نہیں کرے گی۔

امریکی اور علاقائی سفارتی کوششوں کے حوالے سے کننگھم کہتے ہیں کہ ہم میں سے وہ لوگ جو افغانستان کی مدد کرناچاہتے ہیں اور افغانستان کے بہتر مستقبل کو فروغ دینے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، وہ علاقائی استحکام کو بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے مسئلہ ہے، ہم سب ایک ہی طرح کے مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

افغان خواتین کے حقوق کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں مظاہرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:31 0:00

افغانستان کے لیے سابق سفیر کا کہنا ہےکہ ابھی تک کسی بھی قسم کا ایسا ایجنڈا طے کرنے کی سفارتی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں جس پر طالبان کان دھرتے۔

انہوں نے کہا،’’ "پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ہم نے بار بار جامع حکومت، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی بحالی اور تعلیم کی بحالی اور وہ تمام چیزیں جو (افغانستان کے)باہر کےتمام لوگ اور زیادہ تر افغان چاہتے ہیں ، مختلف فارمولیشنز میں پیش کی ہیں۔لیکن طالبان نے کان بند کر رکھے ہیں اوروہ وہی کرتے رہے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔‘‘

صدر بائیڈن نے اپنا دوسرا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب، منگل سات فروری کو کیا تھا۔امریکہ میں صدر اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی پیش کرتے ہیں اور آئندہ کی حکمت عملی کا احاطہ کرتے ہیں۔

صدر بائیڈ ن نے اپنے دوسرے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں زیادہ توجہ ملک کے اندرونی مسائل پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے ملک کے اندر معاشی استحکام کے لیے سیاسی تقسیم کے خاتمے اور قومی اتفاق رائے کے لیے ری پبلکن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ملک کے اندر روزگار کے مواقع کے فروغ، ملک کے اندر صنعتی و تعمیراتی مواد کی پیداوار بڑھانے کا بھی اعادہ کیا۔ یوکرین جنگ اور چین کے ساتھ مسابقت نہ کہ مخالفت کے عزم کا بھی ان کے خطاب میں شامل موضوعات کا حصہ تھے۔

XS
SM
MD
LG