رسائی کے لنکس

سال 2009اور شمالی کوریا


سال 2009اور شمالی کوریا
سال 2009اور شمالی کوریا

ایک اور سال ختم ہو گیا اور شمالی کوریا کے نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام میں کمی کے کوئی ٹھوس آثار نظر نہیں آئے ۔ شمالی کوریا نے 2009 کے دوران اپنے بیمار لیڈر کی قیادت میں فوجی طاقت میں اضافے کی کوششیں جاری رکھیں۔

2009 کا سال شمالی کوریا کے لیڈرکم یانگ دوئم Kim Jong Il کی صحت کے بارے میں ایک بہت بڑے سوالیہ نشان کے ساتھ شروع ہوا۔وہ بہت سے اہم واقعات کے دوران لوگوں کی نظر سے اوجھل رہے یہاں تک کہ جب دور فاصلے تک جانے والا راکٹ لانچ کیا گیا تو اس وقت بھی وہ سامنے نہیں آئے ۔ اس راکٹ کی لانچ پر دنیا بھر میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔
لانچ کے چند روز بعد جب مسٹر کِم پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں آئے تو وہ خاصے بیمار نظر آتے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے حلیے سے ایسا لگتا تھا جیسے ان پر فالج کا حملہ ہوا ہو۔ سول یونیورسٹی میں مطالعہ شمالی کوریا کے ایک اسکالر یانگ مو ین Yang Moo-Jin کہتے ہیں’’شمالی کوریا نے لوگوں کو تو اپنی ہی کہانی سنائی کہ مسٹرکِم اس لیے بیمار نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ رات دن عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں اور مختلف منصوبوں کا معائنہ کرنے کے لیے بہت سے مقامات پر آتے جاتے رہتے ہیں ورنہ وہ بیمار نہیں ہیں۔‘‘
شمالی کوریا نے ملک کے نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کے لیے عوامی حمایت بھی حاصل کی اور دوسرا نیوکلیئر ٹیسٹ کیا۔جنوبی کوریا کی Donguk University کے پروفیسر Koh Yu-Hwan کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ کا مطلب امریکہ پر دباو ڈالنا تھا۔ ’’شمالی کوریا کا مقصد یہ تھا کہ اوباما انتظامیہ کو اپنے سارے کارڈز دکھا دیے جائیں راکٹ ٹیسٹ اور نیوکلیئر ٹیسٹ دونوں ۔ گویا امریکہ سے کہا جائے کہ اب نیوکلیئر مذاکرات یا نیوکلیئر اسلحہ کے پھیلاو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو‘‘۔

اس کے چند مہینے بعد جب جنوبی کوریا کے سابق صدر Kim Dae-jung کا انتقال ہوا تو شمالی کوریا کو جنوب کے ساتھ سفارتی تعلقات میں گرمجوشی دکھانے کا موقع ملا۔پیانگ یانگ سے اعلیٰ مندوبین اظہار عقیدت اور جنوبی کوریا کے صدر Lee Myung-bak سے ملنے کے لیے آئے ۔ اس سے پہلے شمالی کوریا کا میڈیا صدر Lee Myung-bak کو ان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے غدار کا خطاب دے چکا ہے ۔

وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے شوہر ، سابق امریکی صدر بل کلنٹن دو امریکی صحافیوں کو شمالی کوریا کی قید سے نجات دلانے کے لیے اگست میں پیانگ یانگ گئے ۔سول یونیورسٹی کے اسکالرموین کہتے ہیں’’اگرچہ بل کلنٹن کا دورہ بنیادی طور پر دو خواتین صحافیوں کے رہائی کے لیے تھا لیکن اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوا۔شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ممکن بنانے میں یہ دورہ سنگ میل ثابت ہوا۔‘‘
نومبر میں صدر اوباما جنوبی کوریا گئے اور شمالی کوریا کویاد دلایا کہ مذاکرات کی راہ اب بھی کھلی ہے ۔
اس کے دوہفتے بعد ایک امریکی سفارتکار پیانگ یانگ گئے اور انھوں نے کہا کہ شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر اسلحہ کے بارے میں چھ ملکی مذاکرات میں واپس آنا چاہتا ہے ۔ انھوں نے کہا’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ ہے جب شمالی کوریا عالمی معاشرے کا حصہ بن سکتا ہے اور کسی خطرے کے بغیر، عالمی معیشت میں شامل ہو سکتا ہے، یا اگر اس کا اقتصادی بحران اسی طرح گہرا ہوتا گیا تو یہ ملک ہنگاموں کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے عہدے دار کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ 2010 کا آغاز خوشگوار ہو اور جنوری کے شروع میں چھ ملکوں کے نیوکلیئر مذاکرات شروع ہو جائیں۔
XS
SM
MD
LG