رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان: مجوزہ صنعتی علاقے کے قیام پر قبائلیوں کی تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن "ضرب عضب" کے نتیجے میں شدت پسندوں کے خاتمے کے بعد صورتحال میں بہتری کا تو بتایا جاتا ہے لیکن اب بھی قبائلیوں کی پریشانی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔

ایک طرف ابھی تک ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والوں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تودوسری طرف مقامی قبائلیوں کے مابین زمینوں اورجائیدادوں کے تنازعات حکومت کی طرف سے شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے باعث مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی قصبے میران شاہ اوردوسرے بڑے قصبے میرعلی میں مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ انھیں عتماد میں لئے بغیران کی جائیدادوں پرتجارتی مراکز کی تعمیرکے بعد میرعلی ہی کے قریب نورک نامی علاقے میں صنعتی بستی کے مجوزہ منصوبے نے مقامی قبائلیوں کو پریشانی سے دوچارکردیاہے۔

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے ایک انتظامی افسرنے بتایا کہ یہ صنعتی بستی لگ بھگ پانچ ہزارکنال پر تقریباً چارارب روپے کی لاگت سے تعمیرہوگی۔

ان کے بقول یہاں شمالی وزیرستان کے وسائل بالخصوص معدنیات کوبروئے کارلانے کے لئے کارخانے قائم ہوں گے اوریہاں تیارہونے والی مصنوعات غلام خان سے خوست کے راستے افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک برآمد کی جائیں گی۔

تاہم مقامی قبائلی بالخصوص داوڑقبیلے سے تعلق رکھنے والے زیادہ ترلوگ اس صنعتی بستی کی اس بنیاد پرمخالفت کررہے ہیں کہ اس منصوبے کے لیے حاصل کی جانی والی زمین متنازع ہے۔

مقامی قبائلیوں کا دعویٰ ہے کہ صنعتی بستی کے لیے مجوزہ زمین 3مختلف قبیلوں کے دیہاتوں کی شاملات ہیں مگر دہشت گردی اورانتہاپسندی کے دوران دیگرعلاقوں سے آنے والے لوگ بھی قابضین میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں اصل مالکان یعنی مقامی قبائل نے پشاورہائی کورٹ اورکمشنرپشاورکی عدالتوں میں درخواستیں بھی دائرکر رکھی ہیں۔

ایک قبائلی رہنما اورتجزیہ کارنوربہرام نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ متنازع زمین پرصنعتی بستی کے قیام سے ترقی کی بجائے تنزلی اورپسماندگی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل مقامی قبائلیوں کواعتماد میں لئے بغیر میران شاہ اورمیرعلی میں تجارتی مر اکزتعمیرکئے گئے اورشمالی وزیرستان سے ملحقہ ڈانڈے درپہ خیل ہی میں لوگوں کواپنے مکانات اورجائیدادوں پرواپس جانے اوردوبارہ آبادنہیں ہونے دیاجارہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نوربہرام نے کہا کہ روایتی جرگوں کے ذریعے زمین ودیگرتنازعات باآسانی حل ہوسکتے ہیں مگرقبائلی انتظامی افسران کے مبینہ غلط اقدامات کے باعث اس قسم کے تنازعات دن بدن پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

ایک اورسرکردہ قبائلی رہنما ملک اشرف خان داوڑ نے بھی قبائلی انتظامیہ کی پالیسیوں پرنکتہ چینی کی اورمطالبہ کیا کہ صنعی علاقہ بناناے سے پہلے دومختلف قبیلوں کے مابین اس تنازع کوحل کیا جائے۔

فاٹا سیکرٹریٹ کے ترجمان عبدالسلام وزیرنے رابطے پربتایا کہ 1995میں قبائلی علاقوں میں رائج قانون "فرنیٹرکرائمزریگولیشن" کے تحت قائم کئے گئے ایک روایتی جرگے نے دوقبیلوں کے مابین اس زمین پرتنازع حل کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعتی بستی پر کام شروع ہونے سے پہلے قبائلی کے تحفظات کو قانون کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG