رسائی کے لنکس

امریکہ: حادثات کی روک تھام کے لیے گاڑیوں میں الکحل سینسر لگانے کی سفارش


حادثے کے مقام پر فائر بریگیڈ اور رامدادی کارکن جوجود ہیں۔
حادثے کے مقام پر فائر بریگیڈ اور رامدادی کارکن جوجود ہیں۔

امریکہ میں حکام نے نشے میں دھت افراد کی نشان دہی اور حادثات کی روک تھام کے لیے گاڑیوں میں الکحل سینسر لگانے کی سفارش کی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خودکار طریقے سے ڈرائیور کے سانس سے الکحل کی موجودگی کا سراغ لگائے گی اور اگر ڈرائیور شراب کے نشے میں ہوا تو گاڑی رُک جائے گی۔

امریکہ میں گزشتہ سال ٹریفک حادثات میں 43 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 2020 میں ٹریفک سے منسلک ساڑھے گیارہ ہزار ہلاکتوں کا سبب شراب نوشی تھا۔ ہلاکتوں کا باعث بننے والی گاڑیوں کو ایسے افراد چلا رہے تھے جنہوں نے شراب پی رکھی تھی۔

امریکہ کا ٹرانسپورٹ کے تحفظ سے متعلق ادارہ ’نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ’ موٹر گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیوں کو یہ سفارشات بھیجنے جا رہا ہے کہ تمام نئی گاڑیوں میں خون میں الکحل کی نگرانی کا نظام بھی نصب کیا جائے تاکہ نشے میں دھت افراد کو گاڑی چلانے سےباز رکھا جا سکے۔

اگر نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن کی اس سفارش کو نافذ کر دیا جاتا ہے تو شراب سے منسلک ٹریفک حادثات کی تعداد پر قابو پایا جا سکتا ہے جو امریکہ میں سڑکوں پر حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ہائی ویز پر ٹریفک کے تحفظ کے ادارے نے منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں گزشتہ سال کیلی فورنیا میں پیش آنے والے ایک حادثے کا بھی ذکر کیا ہے جس میں شراب کے نشے میں دھت ایک ڈرائیور نے دوسری گاڑی کو ٹکر مار دی تھی جس کے نتیجے میں ڈرائیور سمیت سات بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

نیشنل ہائی ویز ٹرانسپورٹ سیفٹی اتھارٹی کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال ٹریفک حادثات میں 43 ہزار افراد ہلاک ہوئے جو 16 برسوں میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی سب سے بلند شرح ہے۔

ٹریفک کے تحفظ کے قومی ادارے کے مطابق امریکہ میں 2020 میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں سے 30 فی صد شراب نوشی کے باعث پیش آئے اور یہ شرح 2019 کے مقابلے میں 14 فی صد زیادہ تھی۔

رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں بھی ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

نیشنل ٹریفک سیفٹی بورڈ کے پاس اپنی کسی سفارش کو نافذ کرنے کے اختیارات نہیں ہیں اور وہ دوسری ایجنسیوں کو کارروائی کے لیے کہہ سکتا ہے۔اپنی موجودہ سفارش کے متعلق ٹریفک سیفٹی بورڈ کا کہنا ہے کہ اس پر تین سال کے اندر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔

نیشنل ٹریفک سیفٹی بورڈ کی چیئر پرسن جینیفر ہومنڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔

ادارے کی سفارشات میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ڈرائیور کے رویے پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہےکہ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور چوکس رہے۔

ہومنڈی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی کاروں میں ایسے کیمرے نصب ہیں جو ڈرائیور کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔

ٹرک حادثہ، مرغیاں پنجروں سے باہر آگئیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:34 0:00

انہوں نے کہا کہ ہماری سفارشات کے باوجود ڈرائیورز کے الکحل ٹیسٹ مکمل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔اسی طرح ٹیسٹنگ کے لیے بہتر اور قابل بھروسہ ٹیکنالوجیز کو تلاش کرنے میں بھی وقت لگ سکتا ہے۔

نیشنل ٹریفک سیفٹی بورڈ اور 16 آٹو کمپنیوں کا ایک گروپ الکحل کی نگرانی سے متعلق تحقیق کے لیے 2008 سے فنڈز مہیا کر رہا ہے۔ اس گروپ کے ترجمان جیک میک کوک کا کہنا ہے کہ ان کے گروپ نے اس مقصد کے لیے سوئیڈن کی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی خودکار طریقے سے ڈرائیور کے سانس سے الکحل کی موجودگی کا سراغ لگائے گی اور اگر ڈرائیور شراب کے نشے میں ہوا تو گاڑی رُک جائے گی۔اس آلے میں نصب سینسر ڈرائیور کے سانس کا مسلسل جائزہ لیتا رہے گا۔ یہ ٹیکنالوجی 2024 کے آخر تک تیار ہو سکتی ہے جس کے بعد بننے والی گاڑیوں کے نئے ماڈلز میں یہ ٹیکنالوجی نصب ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ الکحل کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی کی تجارتی پیمانے پر پیداوار شروع ہونے کے چند برسوں کے بعدامریکہ کی سڑکوں پر چلنے والی لگ بھگ 28 کروڑ گاڑیوں میں سے اکثر میں یہ سینسر نصب ہو گا۔

اس رپورٹ کے کچھ مواد ایسوسی ایٹد پریس سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG