رسائی کے لنکس

جوہری اسلحہ کے عدم پھیلاوٍ کے جائزےپر کانفرنس کاتجزیہ


جوہری اسلحہ کے عدم پھیلاوٍ کے جائزےپر کانفرنس کاتجزیہ
جوہری اسلحہ کے عدم پھیلاوٍ کے جائزےپر کانفرنس کاتجزیہ

180 سے زیادہ ملکوں نے نیوکلیئر نان پرولیفیریشن ٹریٹی یعنی نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ پر دستخط کیے ہیں اور اس کی توثیق کی ہے ۔ یہ معاہدہ نیوکلیئر اسلحہ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششوں کی قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

دنیا بھر کے ملکوں کے مندوبین نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے جائزے کی کانفرنس میں شرکت کے لیے نیو یارک میں جمع ہو رہے ہیں ۔ یہ کانفرنس اگلے پیر سے شروع ہو رہی ہے۔ اس روز معاہدے پر عمل در آمد شروع ہوئے چالیس برس ہو چکے ہوں گے۔

180 سے زیادہ ملکوں نے نیوکلیئر نان پرولیفیریشن ٹریٹی یعنی نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ پر دستخط کیے ہیں اور اس کی توثیق کی ہے ۔ یہ معاہدہ نیوکلیئر اسلحہ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششوں کی قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس معاہدے پر دستخطوں کا آغاز 1968ء میں شروع ہوا تھا اور دو برس بعد اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ 1995ء میں رکن ممالک کی رضامندی سے معاہدے میں غیر معینہ مدت کی توسیع کر دی گئی ۔ہر پانچ برس بعد دستخط کرنے والے ملک اس معاہدے پر عمل در آمد کا جائزے لینے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ مئی کے مہینے میں اقوامِ متحدہ میں یہی جائزہ کانفرنس ہو رہی ہے ۔

سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفیریشن کے ایگزیکیوٹو ڈائرکٹر جان آئزکس کہتے ہیں کہ اس معاہدے میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ایک سودا کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ سودا اس وقت کے نیوکلیئر ہتھیار والے ملکوں یعنی امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین اور ایسے ملکوں کے درمیان ہوا تھا جنھوں نے کم از کم اس وقت تک نیوکلیئر ہتھیار تیار نہیں کیے تھے ۔بنیادی سودا یہ تھا کہ امریکہ سمیت نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس ملک اپنے ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنے کے اقدام کریں گے اور جن ملکوں نے اس وقت تک نیوکلیئر ہتھیار تیار نہیں کیے تھے وہ نیوکلیئر ہتھیار تیار نہیں کریں گے۔ تمام ملکوں کو نیوکلیئر طاقت تیار کرنے کی آزادی ہوگی جب تک کہ وہ اس نیوکلیئر میٹیریل کو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے لیئے استعمال نہ کریں‘‘۔

اگرچہ نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر 180 ملکوں نے دستخط کیے ہیں لیکن دستخط نہ کرنے والوں میں بہت سے اہم ملک شامل ہیں ۔ نان پرولیفیریشن ایجوکیشن سینٹر کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ہنری سوکولسکی کہتے ہیں کہ’’ان میں اہم ترین ملک وہ ہیں جنھوں نے نہ صرف یہ کہ دستخط نہیں کیے بلکہ نیوکلیئر ہتھیار حاصل کر لیے ۔ ان میں بھارت ،پاکستان اور اسرائیل شامل ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے یہ بات تسلیم نہیں کی ہے کہ اس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔پھر شمالی کوریا ہے جو پہلے این پی ٹی کا رکن تھا لیکن بعد میں اس سے الگ ہو گیا اور اس کے بعد اس نے نیوکلیئر ہتھیار ٹیسٹ کیے ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مندوبین اس بات کا جائزہ لیں گے کہ شروع کے پانچ نیوکلیئر ہتھیار رکھنے والے ملکوں نے اپنے نیوکلیئر اسلحہ کے ذخائر میں کس حد تک کمی کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان حال ہی میں تخفیفِ اسلحہ کا جوسمجھوتہ ہوا ہے وہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے ۔آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈیرل کم بال کہتے ہیں کہ جائزہ کانفرنس میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو زیادہ مضبوط بنانے کے اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا۔یہ معاملہ بھی زیر ِ بحث آئے گا کہ جو ملک معاہدے کی پابندی نہیں کرتے ان سے کیسے نمٹا جائے ۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ایران یورینیم کو افزودہ کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور اس نے اپنی موجودہ اور ماضی کی سرگرمیوں کے بارے میں آئی اے ای اے کے تمام سوالات کا جواب نہیں دیا ہے ۔

توقع ہے کہ شمالی کوریا کے این پی ٹی سے علیحدہ ہو جانے اور اس کے نیوکلیئر اسلحہ کے بارے میں بھی بات چیت ہو گی۔ لیکن کم بال کہتے ہیں کہ ملکوں کا نام لے کر ان پر تنقید نہیں کی جائے گی۔ ان کےمطابق ’’اگر بعض ملکوں نے دوسرے ملکوں کے نام لے کر ان پر تنقید کی تو اس سے پورا ماحول زہر آلود ہو جائے گا، خاص طور سے اگر ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔این پی ٹی کے رکن کی حیثیت سے ایران کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ کانفرنس کے حتمی بیان پر اتفاق ِ رائے کو بلاک کر دے۔ میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ کانفرنس عدم پھیلاؤ کے چیلنجوں سے نمٹے اور شمالی کوریا اور ایران کے نیوکلیئر پروگراموں کے مسائل پر ملکوں کے نام لیئے بغیر بات کرے‘‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کانفرنس میں مصر کی اس تجویز پر بھی غور کیا جائے گا کہ مشرقِ وسطیٰ میں نیوکلیئر اسلحہ سے پاک علاقہ قائم کرنے کے لیئے بین الاقوامی میٹنگ بلائی جائے ۔ ماہرین کو امید ہے کہ اس جائزہ کانفرنس کے بعد ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ پانچ برس پہلے ایسا نہیں ہوا تھا ۔جان آئزکس کہتے ہیں کہ پچھلی جائزہ کانفرنس بالکل بے نتیجہ رہی تھی۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ وہ موقف تھا جو امریکہ نے صدر جارج ڈبلو بش کے عہدِ صدارت میں اختیار کیا تھا۔ صدر بُش کو اور ان کی ٹیم کو نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ انہیں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

آئزکس اور دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ وقت بدل چکا ہے ۔ توقع ہے کہ اوباما انتظامیہ کا رویہ اس چارہفتے کے سیشن میں بہت مختلف ہو گا۔

XS
SM
MD
LG