پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی جوہری سلامتی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر تشویش کا اظہارنہ کیا جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کسی حد تک ان کے محفوظ ہونے کے حوالے سے قائل ہو چکا ہے ۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں پروفیسر اے ایچ نیئر نے کہا کہ ملک کے جوہری ہتھیاروں و تنصیبات سے وابستہ افراد نے امریکہ کو اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ جوہری اثاثوں کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے کس قسم کاموثر کمانڈ اینڈ کنڑول نظام موجود ہے ۔ اُن کے مطابق یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اس ضمن میں پائے جانے والے خدشات اب دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ایک مضبوط حکومت اور مستحکم سیاسی نظام بھی قائم رہے ورنہ اُن کے بقول بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ جوہری سلامتی کانفرنس میں امریکی قیادت کی طرف سے پاکستان کے بارے میں جو مثبت بیانات دیے گئے ہیں وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان قربت ، مطابقت اور ہم آہنگی بڑھ رہی ہے اور یہ کہ اسلام آباد اور واشنگٹن مضبوط اسٹریٹجیک تعلقا ت کی طرف گامزن ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ اس بات پر پرعزم دکھائی دیتے ہیں کہ باہمی تعاون سے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق کی رائے میں صدر براک اوباما کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے حکمت عملی میں ایک واضح مثبت تبدیلی آئی ہے ۔