رسائی کے لنکس

پاکستانی صحافیوں پر مہلک حملوں میں کمی لیکن خطرات بدستور موجود: رپورٹ


رپورٹ کے مطابق عالمی آزادیِ صحافت یعنی فریڈم انڈکس کی فہرست میں رواں سال پاکستان 139ویں نمبر پر ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کی ایک عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ رواں سال اگرچہ پاکستان میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد پر ہونے والے مہلک حملوں میں کمی آئی ہے تاہم انتہا پسندی کی وجہ سے اب بھی صحافیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔

یہ بات صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم "رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز" نے بدھ کو جاری ہونے والے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق عالمی آزادیِ صحافت یعنی فریڈم انڈکس کی فہرست میں رواں سال پاکستان 139ویں نمبر پر ہے جب کہ 2016ء میں فہرست پر پاکستان کا نمبر 148واں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ پاکستان میں رواں سال صحافیوں کے خلاف ہونے والے حملوں میں کمی آئی ہے تاہم اب بھی ملک میں انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے صحافیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو ان انتہا پسند مذہبی گروپوں کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے جو صحافیوں پر اپنے نقطہ نظر کی ترویج کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

معروف تجزیہ کار اور ابلاغیات کے استاد مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان سکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح صحافیوں کو بھی اپنے فرائض کی بجا آوری کی راہ میں کئی طرح کی مشکلات درپیش ہیں۔

بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں اس کی ایک وجہ صحافیوں کو غیر معمولی حالات میں کام کرنے کی تربیت کا نا ہونا بھی بتایا۔

"اس میں دو وجوہات ہیں ایک تو یہ ہے کہ حالات ایسے خطرناک ہیں کہ کام کرنا پڑتا ہے اور دوسرے ان کے مالکان ان کی ٹریننگ کا کوئی بندوبست نہیں کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں جنگ کی صورت حال ہو اگر اس میں رپورٹنگ کرنی پڑے تو کیا احتیاطیں کرنا چاہیئں اور کیا اقدامات انہیں کرنے چاہیئں ایسی ان کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے ۔۔۔ان کی نا تو کوئی انشورنس کرائی جاتی ہے نا ان کو کوئی ایسی تربیت دی جاتی ہے۔"

تاہم مہدی حسن نے کہا کہ صحافیوں کی تریبت کا فقدان اپنی جگہ لیکن ان کے بقول سلامتی کی صورت حال اب بھی ایک چیلنج ہے۔

"رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز" کی رپورٹ میں جہاں انتہا پسندی کے خطرے کا ذکر کیا گیا وہیں یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری عہدیداروں، سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا موقف ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بدترین دہشت گردی نے ملک کے تمام طبقات بشمول صحافیوں کو بری طرح متاثر کیا، لیکن ملک میں امن و امان کی صورت حال میں بتدریج بہتری آنے کی وجہ سے صحافیوں کو لاحق خطرات بھی کم ہو رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG