رسائی کے لنکس

’طویل ترین امریکی جنگوں کے خاتمے کی کوششوں کا آغازکررہے ہیں‘


’طویل ترین امریکی جنگوں کے خاتمے کی کوششوں کا آغازکررہے ہیں‘
’طویل ترین امریکی جنگوں کے خاتمے کی کوششوں کا آغازکررہے ہیں‘

صدر براک اوباما کا منصوبہ ہے کہ 2012 کے آخر تک افغانستان سے ایک تہائی امریکی فوجیں نکال لی جائیں۔ صدر نے بدھ کے روز کہا کہ فوجوں کی تعداد میں حالیہ اضافے سے مطلوبہ مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔

صدر اوباما نے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کی طویل ترین جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کا آغاز کر رہے ہیں۔’’امریکہ کے لوگو، اب یہ اپنے ملک کی تعمیر پر توجہ دینے کا وقت ہے۔‘‘

مسٹر اوباما نے کہا کہ افغانستان میں ایک لاکھ امریکی فوجوں نے القاعدہ کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ، جس نے 2001 میں نیو یارک اور واشنگٹن میں ہولناک حملے کیے تھے ، شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ انھوں نے کہا’’اگلے مہینے سے، ہم افغانستان سے اپنے فوجی نکالنا شروع کریں گے اور اس سال کے آخر تک 10,000 فوجی واپس لے آئیں گے۔ اگلے سال کی گرمیوں تک ، ہم کُل 33,000 فوجی نکال لیں گے۔‘‘

مسٹر اوباما نے یہ 33,000 فوجی 2009 کے آخر میں افغانستان بھیجے تھے تا کہ القاعدہ پر توجہ مرکوز کی جائے، طالبان کے زور کو توڑا جائے، اور افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دی جائے تا کہ وہ خود اپنے ملک کا دفاع کر سکیں۔

امریکی فوجوں نے 2001 میں نائن الیون کے حملوں کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا۔ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ بہت سے امریکی جنگ سے تنگ آ چکے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ جنگ کے بجائے ملکی معاملات پر ، جیسے معیشت پر ، توجہ دے ۔

امریکی کانگریس کے بعض ارکان فوجوں کی واپسی کی رفتار تیز کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ عجلت میں فوجیں واپس نکالنے سے اس ترقی کو نقصان پہنچے گا جو اب تک افغانستان میں ہوئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صدر کے چوٹی کے مشیروں میں بھی اس قسم کی بحث ہوتی رہی ہے۔

بدھ کے روز صدر نے اس سوال پر توجہ دی اور کہا کہ امریکی پالیسی میں مناسب توازن ہونا چاہیئے۔’’کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم عالمی سیکورٹی کے استحکام کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائیں اور الگ تھلگ ہوجائیں اور یوں ان خطرات کو نظر انداز کر دیں جو ہمیں درپیش ہیں۔ بعض دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ امریکہ ہر جگہ سرگرم ہو، اور بیرونی دنیا میں پائی جانے والی ہر برائی سے ٹکر لے ۔ ہمیں زیادہ میانہ روی کی راہ اختیار کرنی چاہیئے۔‘‘

صدر نے کہا کہ جیسے جیسے افغان اپنے ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالتے جائیں گے، افغانستان میں امریکہ کا مشن جنگ لڑنے کے بجائے مدد فراہم کرنے کا ہو جائے گا۔ مسٹر اوباما نے کہا کہ تبدیلی کا یہ عمل 2014 تک مکمل ہو جائے گا۔

افغان فوج کے زیر تربیت اہلکار
افغان فوج کے زیر تربیت اہلکار

انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ نیٹو اگلے سال مئی میں ان کے اپنے شہر، شکاگو میں ایک سربراہ کانفرنس منعقد کرے گی۔ اس کانفرنس میں افغانستان میں تبدیلی کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

صدر اوباما نے کہا کہ اس دوران، امریکہ ان امن مذاکرات کی حمایت کرے گا جن میں افغان حکومت اور طالبان شامل ہوں گے۔ یہ سمجھنے کی وجہ موجود ہے کہ اس معاملے میں پیش رفت ممکن ہے ۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، ان کی انتظامیہ پاکستان پر زور دے گی کہ وہ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں زیادہ تعاون کرے ۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ ان کا مجموعی ہدف یہ ہے کہ افغانستان سے رخصت ہوتےوقت، وہاں کوئی ایسا محفوظ ٹھکانہ نہ ہو جہاں سے القاعدہ یا اس کے حلیف امریکہ پر یا اس کے اتحادیوں پر حملہ کر سکیں۔ انھوں نے کہا’’ہم افغانستان کو ہر خامی سے پاک جگہ بنانے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ ہم اس کی سڑکوں پر پولیس کے فرائض انجام نہیں دیں گے اور نہ اس کے پہاڑوں میں غیر معینہ مدت کے لیے گشت کریں گے۔‘‘

صدر اوباما نے امریکہ کے لوگوں سے وعدہ کیا کہ افغانستان اور عراق میں طویل جنگیں، ذمہ دارانہ انداز سے ختم کر دی جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG