رسائی کے لنکس

”انخلاء سے قبل خطے میں استحکام کو یقینی بنایا جائے“


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر باراک اوباما کے سٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں افغانستان سے جولائی 2011ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چاہے گا کہ افغانستان سے افواج کے انخلاء سے قبل خطے میں استحکام کو یقینی بنایا جائے، کیوں کہ اُن کے بقول ماضی میں افغان جہاد کے بعد امریکہ کے علاقے سے چلے جانے کے بعد پاکستان کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ا تھا اب دوباہ اُن کا ملک اُس طرح کے حالات سے دوچار ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کے صدر کی طرف سے افغانستان سے فوجی انخلاء کی جو تاریخ دی گئی ہے اُن کے بقول اس معاملے پر حالات آئندہ ایک دو مہینے میں واضح ہو جائیں گے ۔

قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ امریکہ نہ صرف یہ چاہتاہے کہ وہ سکیورٹی کا انتظام افغان فورسز کے حوالے کیا جائے بلکہ جنگ کے ساتھ ساتھ مصالحت کا عمل بھی جاری رہے او ر اُن کے بقول امریکہ اور دیگر ممالک بھی یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ طالبان جو جنگ سے تنگ آچکے ہیں اُن کے ساتھ بات چیت کی جائے اور اُنھیں حکومت اور سکیورٹی اداروں میں شامل کیا جائے۔

دفاعی تجزیہ نگار ائیر کموڈور ریٹائرڈخالد اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کا انتظام نیم تربیت یافتہ افغان سکیورٹی فورسزکے حوالے کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اُن کاکہنا ہے کہ امن وامان کی ذمہ داری امریکی افواج سے افغان سکیورٹی فورسز کومنتقل کرنے سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئیے کہ وہ اس قابل ہوں کہ امن وامان کی صورت حال کو اپنے طور پر کنٹرول کرسکیں ۔

صدر اوباما کی طرف سے خطاب میں جوہری ہتھیاروں کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیے جانے پرحکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام کا کہنا ہے کہ غیر محفوظ جوہری ہتھیار تو نا صر ف امریکہ بلکہ پور ی دنیا اورانسانیت کے لیے خطرہ ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار مکمل طور پر محفوظ ہیں اور حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے ایک جامع نظام وضع کررکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG