رسائی کے لنکس

غیر اعلانیہ دورہ: افغانستان کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا، اوباما


غیر اعلانیہ دورہ: افغانستان کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا، اوباما
غیر اعلانیہ دورہ: افغانستان کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا، اوباما

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں طالبان کی پیش رفت روکنے میں کامیاب ہورہی ہیں اور انہیں افغانستان میں اپنے مشن میں کامیابی ہوگی۔

اوباما جمعہ کے روز غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے کابل کے نزدیک واقع بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج طالبان کے خلاف پیش رفت کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔

صدر اوباما نے اپنے خطاب میں افغانستان کی نو سالہ طویل جنگ میں اتحادی افواج کی جانب سے ادا کی جانے والی "انتہائی اہم خدمات" پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اتحادی فوجیوں کو ان کی ان قربانیوں پر بھی خراجِ تحسین پیش کیا جو وہ اپنے گھروں سے دور افغانستان میں پیش کررہے ہیں۔

افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے میں صدر براک اوباما امریکی افواج کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے۔
افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے میں صدر براک اوباما امریکی افواج کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے۔

صدر اوباما جمعہ کی شب اچانک افغانستان پہنچے تھے۔ تاہم موسم کی خرابی کے باعث افغان صدر حامد کرزئی اور ان کے درمیان طے شدہ ون آن ون ملاقات عین وقت پر ملتوی کردی گئی جس کے بعد کابل کے نواح میں واقع بگرام ایئر بیس پر موجود امریکی صدر نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت پہ اکتفا کیا۔

اپنے مختصر دورے کے دوران صدر اوباما نے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے کمانڈر امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور افغانستان میں امریکی سفیر کارل ایکن بیری سے بھی ملاقات کی۔ جس کے بعد امریکی صدر نے بگرام ایئر بیس کے اسپتال میں پانچ زخمی امریکی فوجیوں کو اعلیٰ فوجی اعزاز "پرپل ہارٹ" عطا کیا۔

صدر اوباما کا دورہ افغانستان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب وہائٹ ہائوس انتظامیہ آئندہ چند روز میں افغانستان میں جاری جنگ اور اس سے نبٹنے کی امریکی حکمتِ عملی کا جائزہ لینے والی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جائزے کے دوران افغان جنگ کے حوالے سے کئی اہم فیصلے اور امریکی پالیسی میں اہم تبدیلیا ں متوقع ہیں۔

XS
SM
MD
LG