رسائی کے لنکس

صدر اوباما کو اس سال بھی خارجہ پالیسی میں مسائل کا سامنا رہے گا: تجزیہ کار


صدر اوباما کو اس سال بھی خارجہ پالیسی میں مسائل کا سامنا رہے گا: تجزیہ کار
صدر اوباما کو اس سال بھی خارجہ پالیسی میں مسائل کا سامنا رہے گا: تجزیہ کار

صدر اوباما اپنی حکومت کا ایک سال پورا کر چکے ہیں۔ اس عرصے میں ملک کے اندر ان کی توجہ صحت کے نظام میں اصلاحات اور معیشت کو بحران سے نکالنے پر رہی۔ عالمی چیلنجز میں ان کے سامنے افغانستان اور پاکستان سب سےنمایاں رہے جبکہ ابتدا میں انہوں نے ایران کے ساتھ تلخیاں کم کرنے کی بھی کوشش کی۔ماہرین کا کہناہے کہ اس نئے سال میں بھی خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہیں کئی مسائل کاسامنارہے گا جن میں سے اکثر کا تعلق مسلم ممالک سے ہوگا۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی کو درپیش ایک دیرینہ چیلنج ہے فلسطین اسرائیل تنازع، جس کے حل کے لیے گزشتہ ادوار میں بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ مسلم دنیا کو یہ شکایت ہے کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مشیر ایرن ڈیوڈ ملر نے ایک مذاکرے میں کہا کہ مسئلہ کمزور سیاسی قیادت ہے۔

ان کا کہناتھا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کو ختم کرنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے ۔ یعنی ایسا معاہدہ جو اس تنازع کو پیدا کرنے والی وجوہات کا خاتمہ کرسکے۔ یہ وجوہات ہیں بارڈر، یروشلم، سیکیورٹی اور مہاجرین۔ اور اس سلسلے میں شامل افراد کی سوچ اور سیاسی اہلیت ایسی نہیں کہ وہ ان مسائل کے حل تک پہنچ سکیں۔

ایرن ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ عرب اسرائیل تنازع کے حوالے سے ایک مسئلہ دونوں فریقوں میں لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ یعنی ایسے راہنما جو کوئی نمایاں پیش رفت کرسکیں، موجود نہیں ہیں۔ مسلم دنیا میں امریکہ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ایران کا ایٹمی پروگرام ہے۔ جس کی وجہ سے ایران کو کئی پابندیوں کا سامناہے۔ صدر اوباما نے سابق صدر جارج بش کے مقابلے میں ایران کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا۔ لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وڈروولسن سینٹر کے ایک سکالر رابرٹ لٹ ویک کہتے ہیں کہ اگر واشنگٹن میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والی بحث کو دیکھا جائے تو ان میں جو حال سامنے آتا ہے وہ ہےایرانی تنصیبات کو تباہ کرنے سے لے کراس کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرنے تک کا ہے۔ ہم اس کا ایٹمی پروگرام تسلیم کر سکتے ہیں۔اور یہ دونوں حکمتِ عملیاں ایران میں معاشرتی تبدیلیوں کا عکس پیش کرتی ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کو ایران میں اپوزیشن کی طرف سے جاری مظاہروں اور تحریر سے دور رہنا چاہیے۔ یہ ایرانی عوام کی تحریک ہے اور تبدیلی بھی انہی کو لانی چاہیے۔

خطے میں امریکی فارن پالیسی کا ایک اور امتحان ہے پاک امریکہ تعلقات۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ دونوں ملک اتحادی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتے آئے ہیں مگر دونوں ممالک میں اعتماد کا فقدان برقرارہے۔

رابرٹ لٹ ویک کہتے ہیں کہ پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ پچاس سال سے مسلسل ان کے ملک کے ملٹری ڈکٹیٹرز کی حمایت کی ہے۔ اور ملک کی جمہوریت کی خلاف کام کیا ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے اپنے مفاد کے لیے مسلسل پاکستان کے خلاف کام کیا ہے اور جب ہمیں ان کی ضرورت نہیں تھی ہم انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

رابرٹ ہاتھاوے کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات ایک ناخوشگوار شادی کی طرح ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس رشتے میں قطع تعلق امریکی مفادات کے حصول میں بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG