رسائی کے لنکس

صحت کے نظام میں اصلاحی منصوبے کی منظوری کے بعد سیاسی صورتحال کا تجزیہ


اس ہفتے امریکی کانگریس میں علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے منصوبے کی منظوری صدر باراک اوباما کی زبردست سیاسی فتح ہے ۔ یہ صحیح معنوں میں تاریخ ساز لمحہ تھا۔ لیکن اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ سیاسی اعتبار سے اس قانون کے کیا نتائج نکلیں گے اور نومبر کے وسط مدتی انتخاب پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔

بہت سے سیاسی ماہرین، علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے بل کو تاریخی کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ نیو جرسی کی Rutgers University کےرَوس بیکر نے کہا ہے’’یہ وہ چیز ہے جو سو برس پہلے امریکی عوام کے علم میں آئی تھی جب صدر تھیو ڈور روزویلٹ نے قومی ہیلتھ انشورنس پروگرام کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کے بعد سے بہت سے امریکی صدور ، جن میں سے بیشتر ڈیموکریٹس تھے، اس منصوبے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔‘‘

صدر اوباما کا جو منصوبہ امریکی کانگریس نے منظور کیا ہے اس کے ذریعے بالآخر مزید تین کروڑ 20 لاکھ امریکیوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت حاصل ہو جائے گی۔اس منصوبے پر دس برس کے عرصے میں تقریباً ایک کھرب ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ رقم ٹیکسوں میں اضافے اور صحت کے اخراجات میں کفایت سے حاصل کی جائے گی۔ اس بِل کا ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ کہ انشورنس کمپنیاں علاج معالجے کی سہولتیں محدود یا منسوخ نہیں کر سکیں گی۔

مسٹر اوباما ملک میں تبدیلی لانے کے وعدے پر 2008 میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے فوراً ہی علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ کانگریس میں ایک برس سے زیادہ عرصے تک جد و جہد کے بعد صدر اور ان کے ڈیموکریٹک ساتھی اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے ۔ اس تاریخی فتح کے موقع پر صدر اوباما نے کہا’’ہم نے اپنی ذمہ داری سے جی نہیں چرایا، ہم نے اسے گلے لگایا۔ ہم مستقبل سے خوفزدہ نہیں ہوئے، ہم نے اسے نئی شکل دی۔‘‘

سیاسی تجزیہ کار اور مصنف رچرڈ وولف کہتے ہیں کہ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اوباما کا ہیلتھ پلان تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں ہر وہ چیز نہیں ہے جس کی ہر شخص کو امید تھی لیکن امریکی معیشت کے بہت بڑے حصے پر اس کے بہت دور رس اثرات ہوں گے ۔

اس قانون کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ بہت بڑا سیاسی جوا ہے ۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے امریکیوں کی تعداد، اس کی حمایت کرنے والوں سے زیادہ ہے ۔ ریپبلیکنز کا خیال ہے کہ صدر اور ان کے ڈیموکریٹک ساتھیوں کو نومبر میں ہونے والے امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخاب میں اس اقدام کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں اصلاح کی بحث نے امریکہ میں ٹی پارٹی موومنٹ کو جنم دیا ہے۔ یہ قدامت پسندلله اور ٹیکسوں کے مخالف عوامی گروپوں کا ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے جو علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کا مخالف ہے اور اسے امریکی معیشت میں حکومت کی حد سے زیادہ مداخلت قرار دیتا ہے ۔

قدامت پسند امریکی کانگریس میں جنگ تو ہار گئے ہیں لیکن انھوں نے عہد کیا ہے کہ وہ ان ڈیموکریٹس کو نومبر کے انتخابات میں شکست دے کر رہیں گے جنھوں نے اس بِل کی حمایت کی ہے ۔اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے سیاسی مبصر ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ ریپبلیکنز جو کچھ کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح انہیں سیاسی فائدہ حاصل ہو گا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ گذشتہ چھ سے نو مہینوں کے دوران یہ طریقہ کار گر ثابت ہوا ہے ۔

صحت کی دیکھ بھا ل کے نظام کی تند و تیز بحث سے دونوں پارٹیوں کے درمیان تعلقات تلخ ہوگئے ہیں اور رچرڈ وولف جیسے ماہرین کی نظر میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ باہم تعاون کی وہ فضا قائم ہو سکے جس کا وعدہ صدر اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالتے وقت کیا تھا۔ ’’انھوں نے ایک اور چیز جس کا عزم کیا تھا یہ تھی کہ وہ اس شہر میں کام کرنے کے لب و لہجے اور یہاں کی سیاست کے انداز میں تبدیلی لائیں گے ۔ اس معاملے میں وہ بالکل ناکام رہے ہیں۔ ریپبلیکنز نے ان کے خلاف جو مستقل منفی مہم چلائی اس کی انھیں توقع نہیں تھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کسی حد تک ان کی سادہ لوحی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں اپنے اس مقصد میں ناکامی ہوئی کہ دونوں پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں۔‘‘

بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے سلسلے میں جو جانبدارانہ بحث ہوئی ہے اس کی وجہ سے اس با ت کا امکان بہت کم ہے کہ اس سال کسی دوسرے اہم مسئلے جیسے امیگریشن کی اصلاح اور آب و ہوا کی تبدیلی کے سلسلے میں کانگریس میں کوئی پیش رفت ہو سکے۔

XS
SM
MD
LG