رسائی کے لنکس

شام: روس اور امریکہ کے اختلافات برقرار


صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کی گفتگو کے نتیجے میں روس شام پر امریکی حملے کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ ہوگا۔

شام پر ممکنہ امریکی حملے کے بارے میں روس کے تحفظات برقرار ہیں اور روس کے صدرولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ شام پر کوئی بھی غیر ملکی حملہ "غیر قانونی" تصور کیا جائے گا۔

روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جاری دنیا کے اقتصادی طور پر مضبوط 20 بڑے ممالک کے دو روزہ سربراہی اجلاس کےدوران میں ہونے والی ملاقاتوں اور مشاورتوں کے باوجود امریکہ روس کو شام پر حملے کی حمایت کرنے پہ قائل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

جمعے کو سینٹ پیٹرز برگ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کےصدر براک اوباما نے اجلاس کے دوران میں روسی صدر کے ساتھ ہونے والی اپنی بات چیت کو "لگی لپٹی بغیر اور تعمیری" قرار دیا۔

لیکن صدر اوباما کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کی گفتگو کے نتیجے میں روس شام پر امریکی حملے کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ ہوگا۔

دوروزہ اجلاس کے دوران میں مختلف ملکوں کے سربراہان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں امریکی صدر شام پر حملے کے لیے عالمی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہے جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔

ان ملاقاتوں کے بعد امریکہ سمیت سینٹ پیٹرز برگ میں جمع 11 ملکوں کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے عالمی برادری سے شام میں گزشتہ ماہ ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے پر "سخت بین الاقوامی ردِ عمل" ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مذکورہ بیان 'وہائٹ ہاؤس' سے جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس بیان پر دستخط کرنے والے ممالک شام کی حکومت کو 21 اگست کو دمشق کے نواح میں ہونے والے کیمیاوی حملے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جس میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

گو کہ بیان میں عالمی برادری سے شام کے خلاف "سخت قدم" اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن اس میں دمشق حکومت کے خلاف کسی بین الاقوامی فوجی کاروائی کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

بیان پر دستخط کرنے والوں میں امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، سعودی عرب، اسپین، ترکی اور برطانیہ شامل ہیں۔

اس بیان سے قبل اپنی پریس کانفرنس میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ 'جی-20' اجلاس میں شریک بیشتر سربراہانِ مملکت امریکہ کی جانب سے شواہد کی بنیاد پر اخذ کیے گئے اس نتیجے سے متفق ہیں کہ 21 اگست کے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں شامی حکومت ہی ملوث تھی۔

لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ شام کو سبق سکھانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر فوجی کاروائی پر عالمی طاقتوں میں اختلافات ہیں۔

اس سے قبل جمعے ہی کو سینٹ پیٹرز برگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہی اجلاس کے میزبان اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام شامی باغیوں پر عائد کیا تھا جنہیں، ان کے بقول، غیر ملکی مدد مل رہی ہے۔

صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ شام پر کوئی بھی غیر ملکی حملہ "غیر قانونی" تصور کیا جائے گا۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شام میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی جس سے عالمی معیشت متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 'جی-20' ممالک کے سربراہان نے جمعرات کو عشائیے پر شام کے تنازع پہ گفتگو کی تھی جس میں روس کے علاوہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں نے بھی شام میں فوجی مداخلت کی مخالفت کی۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی 'جی-20' اجلاس کے دوران میں فرانس، جرمنی اور ترکی کے رہنماؤں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جس میں شام کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

عالمی ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک میں پہلے سے جاری خانہ جنگی بڑھ سکتی ہے۔
XS
SM
MD
LG