رسائی کے لنکس

نسل پرستی کی سوچ کے سائے اب بھی باقی: اوباما


صدر اوباما کے بقول ’’اس سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نسل پرستی باقی ہے یا نہیں ۔۔۔۔جو کچھ ماضی میں 200 سے 300 برس کے دوران ہوا، اُس سے متعلق ہر بات مکمل طور پر مٹ نہیں گئی‘‘

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ نسل پرستی کی سوچ کے اثرات کی اپنی تاریخ پر مکمل طور پر حاوی نہیں پا سکا۔

مارک مارون کے مزاحیہ پروگرام کے لیے پوڈکاسٹ انٹرویو میں مسٹر اوباما نے کہا کہ ’ہم نسل پرستی پر حاوی نہیں پا سکے‘۔

اُنھوں نے سیاہ فاموں کے بارے میں ایک ہتک آمیز لفظ کے استعمال کا ذکر کیا، اور کہا کہ معاملہ محض یہ نہیں کہ ہم عام اظہار میں احتیاط نہیں برتتے۔

مسٹر اوباما کے بقول، ’اس سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ نسل پرستی باقی ہے یا نہیں۔ معاملہ محض عام امتیاز کا نہیں۔ ایسا ہے کہ معاشروں میں فوری کایا پلٹ نہیں ہوا کرتی، جو کچھ ماضی میں 200 سے 300 برس کے دوران ہوا، اُس سے متعلق ہر بات مکمل طور پر مٹ نہیں گئی‘۔

صدر نے کہا کہ اُن کی پیدائش ایک سفید فام ماں اور سیاہ فام والد کے گھر ہوئی، نسل کے بارے میں رویے بدل گئے ہیں۔ ’تاہم، غلامی کے ورثے کا طویل سایہ اب بھی باقی ہے‘۔

اُنھوں نے اسلحے کے لائسنس کے اجرا کے بارے میں بھی گفتگو کی اور کانگریس سے مایوسی کا اظہار کیا جو اِس ضمن میں قانون سازی میں پیش رفت نہیں دکھا سکی۔

اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں ’انتہائی افسوس‘ ہے کہ کانگریس سینڈی ہُک شوٹنگ کے واقعے کے بعد کوئی اقدام نہیں کر سکی، جس میں 20 بچے ہلاک ہوئے تھے۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ جب اسلحہ رکھنے کا معاملہ ہو تو ضروری ہے کہ شکار یا تربیتی مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت ہونی چاہیئے۔ لیکن، ڈیلان روف کا حوالہ دیتے ہوئے۔۔۔۔ جس نے گذشتہ ہفتے چارلسٹن میں حملہ کرکے مبینہ طور پر نو افراد کو ہلاک کیا، مسٹر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اگر کوئی خالی الدماغ، نسل پرست یا ذہنی طور پر پریشان شخص کا معاملہ ہو، تو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے، اُس کے ہاتھوں سے بندوق چھین لینی چاہیئے، اور یوں، کسی کو اُس کی ضرر رسانی سے بچایا جانا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG