رسائی کے لنکس

امریکہ مزید فوجی شام بھیجے گا


صدر باراک اوباما (فائل فوٹو)
صدر باراک اوباما (فائل فوٹو)

ان اضافی امریکی فورسز میں طبی اور انٹیلی جنس اہلکار شامل ہوں گے جس کے بعد شام میں امریکی دستوں کی تعداد 300 ہو جائے گی۔

امریکی عہدیداروں نے اتوار کو کہا کہ صدر براک اوباما داعش کے خلاف برسرپیکار حزب مخالف کے جنگجوؤں کی مدد کے لیے 250 امریکی فوجی شام بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

صدر اوباما اس بارے میں باضابطہ اعلان پیر کو جرمنی کے شہر ہینوور میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں ان کے ایک ہفتے پر محیط دورے کا آخری قیام ہے جس دوران انہوں نے داعش کے خطرے کے متعلق جرمن، برطانوی اور سعودی رہنماؤں سے بات چیت کی۔

ان اضافی امریکی فورسز میں طبی اور انٹیلی جنس اہلکار شامل ہوں گے جس کے بعد شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد 300 ہو جائے گی۔

قبل ازیں اوباما نے بی بی سی ٹی وی کو بتایا کہ شام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوجی کوششوں سے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

اوباما نے کہا کہ شامی فورسز کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کی بجائے بین الااقوامی برادری کو روس اور ایران پر دباؤ بڑھانا ہو گا "جو صدر بشار الاسد کو سہارا دیے ہوئے ہیں"، تاکہ شامی باغیوں کے ساتھ ایک نئی عبوری حکومت کے قیام کے لیے کوئی سمجھوتہ طے پا سکے۔

اوباما نے شام میں جاری جنگ کو ایک "دردناک اور بہت ہی پیچیدہ صورت حال قرار دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "شام کے طویل المدتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے صرف فوجی حکمت عملی اور یقینیاً ہماری طرف سے مزید فوجی تعینات کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا"۔

شام میں مداخلت کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے اوباما نے کہا کہ امریکی قیادت میں قائم اتحاد رقہ اور موصل جیسے علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

’’یہ ان علاقوں کو الگ تھلگ کرنے اور انہیں بند کرنے کی کوشش ہے جو غیر ملکی جنگجوؤں کو یورپ بھیج رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے بتدریج داعش کے زیر کنڑول علاقے کم ہوتے جائیں گے۔

اوباما نے کہا کہ شام میں صورت حال ایک "عبوری نوعیت کی ہے" اور انہوں نے ان ملکوں کو جنہوں نے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش میں حصہ نہیں لیا تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ "پھر بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ کو اس بارے میں کچھ کرنا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا کہ "آپ یہ دونوں چیزیں نہیں کر سکتے ہیں۔"

XS
SM
MD
LG